اظہاریہ مختصر کہانی تقریب ۲۰۱۵

اردو مِنی کہانیاں ، مختصر تعارف ۔۔۔ پرویز بلگرامی ۔۔۔

بیسویں صدی کے ۤاغاز میں رسالوں کا ایک سیلاب سا ۤانے لگا اور لکھنے والوں کی ذہنی نشوونما بھرپور انداز میں ہونے لگی ۔ نت نئے تجربے بھی ہونا شروع ہوگئے ۔داستانوں کی جگہ افسانوں کو دی جانے لگی ۔یہ ایک الگ بحث ہے کہ ۤایا افسانے مغربی ادب سے متاثر ہو کر لکھے گئے یا یہ بھی مشرقی صنف ہے ۔کیونکہ شیخ سعدی کے ہاں بھی ایسی مختصر داستانیں ملتی ہیں جو ایڈگرایلن پو کی تشریح ” شارٹ اسٹوری وہ نثر پارہ ھے جو آدھے سے دو گھنٹے میں پڑھ لیا جائے اور اس میں وحدت ہو ” کا عکس ہیں ۔ اچھی مِنی کہانی کی خوبی یہی ھے کہ وہ زندگی کا ۤائینہ ہو ۔ اس سلسلے میں مسلسل تجربے ہوتے رہے ۔ مختصر سے مختصر افسانے تخلیق ہونے لگے ۔کہا یہ گیا کہ قاری کے پاس وقت کم ہو رہا ھے ۔ شاید اسی لیئے اس صنف نے مقبولیت حاصل کر لی ۔ پاکستان میں پروفیشنل لکھاریوں کی تعداد زیادہ رہی اس لیئے وہ اس صنف پر کم کم توجہ دیتے ۔ کیونکہ انہیں صفحات بڑھا کر معاوضہ بڑھانے کی فکر زیادہ ہوتی مگر بھارتی لکھاریوں نے اس جانب زیادہ توجہ دی ۔بشیر مالیر کوٹلوی۔مناظر عاشق ہرگانوی۔ عظیم راہی ۔ ایم ۤائی ساجد۔ افتخار امام صدیقی۔ایم اے حق۔ صادقہ نواب سحر ۔ سعدہ بتول فاطمہ ۔ احمد کلیم فیض پوری جیسے بیشمار رائٹر سامنے ۤائے جو زندگی کے بڑے بڑے مسائل کو ذومعنی اختصار کے ساتھ چند سطروں میں پیش کرتے ۔ چند سطروں میں ایسا بم تخلیق کرتے جو قاری کے دماغ میں پھٹتا ۔ یوں بھی مِنی کہانی کی تشریح ہی یہی ہے کہ اختصار منیں وہ کہانی سنائی جائے جس کا تاثر دیر تک رہے ۔ معاشرے کے بنیادی مسائل کے نثری اظہاریہ کسی ایک موضوع پر فوری ردِعمل کو مِنی کہانی کا حسن کہا جانے لگا ۔ مِنی کہانی ہے کیا ؟ اس بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ کہانی جو سیاسی سماجی اور تہذیبی واقعات کا تجزیہ ہو ، شکست و ریخت کا تجزیہ ہو اور وہ بھی اس خوبی سے کہ الفاظ نپے تُلے ہوں ، موضوع انفرادیت کا حامل ہو اور ہمارے اپنے مسائل کا ۤائینہ دار ہو ۔ اسے ہی اچھی مِنی کہانیاں کہا جاسکتا ھے ۔ مِنی کہانی میں پہلا بڑا نام منٹو کا ۤاتا ھے ۔سیاہ حاشیہ کی بلندی کو کسی اور ادیب نے چھونے کی جراءت ہی نہیں کی ۔ گو کہ منٹو کے معاصرین میں راجندر سنگھ بیدی نے بھی کوشش کی مگر کوئی خاص مثال قائم نہ کر سکے ۔ ان کی مِنی کہانیاں رسالہ ” گفتگو ” 1976 میں شائع ہوئیں ۔ان مِنی کہانیوں میں فلسفہ زیادہ نظر ۤاتا ھے ۔ مندر۔ تلافی۔ پھول ۔بیداری اور حادثے جیسے افسانے میرے خیال کی تائید کرتے نظر ۤائیںگے ۔ 1970 میں ان کی مشہور مِنی کہانی ” فساد ” سامنے ۤائی ۔ دوسرا بڑا نام جو سامنے ۤاتا ہے وہ ہے جوگندر سنگھ کا ۔ انہوں نے بیدی سے زیادہ اس صنف پر کام کیا ، بھرپور توجہ دی ۔ 1962 میں ” میں کیوں سوچوں ” میں بائیس مِنی کہانیاں شامل تھیں جن کو افسانچے کا نام دیا تھا ۔ ان مِنی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ “سلوٹیں ” 1975 میں ، تیسرا ” کتھا نگر ” 1986 میں اور چوتھا مجموعہ “پرندے ” 2000 میں منظرِ عام پر ۤایا ۔ کر۔ ہر چرن چاولہ (شن چندر نے بھی مِنی کہانیاں لکھیں مگر ان کا بنیادی رحجان ہیئت کی بجائے سماجی مقصد کی طرف رہا، گویا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ منٹو نے جس صنف کو جنم دیا ، اسے جوانی بخشی جوگندر پال نے یعنی کہ اسے تخلیقی حیات بخشی ۔ رتن سنگھ نے بھی اپنا حصہ ڈالا ۔کئی لازوال کہانیاں بُنیں۔ خواجہ احمد عباس نے بھی کم کم صحیح مگر اس صنف پر کوشش کی ۔ پاکستان میں عباس خان نے مِنی کہانیوں کے کئی مجموعے پیش کیئے ۔ سعید انجم ( ناروے ) کا ” سوتے جاگتے خواب ” ۔ سید سرور ظہیر غزالی ( جرمنی ) کا “بکھرے پتے ” ۔ ڈاکٹر مشتاق عمران (یوکے ) کا “چہرہ در چہرہ ” ۔ ہر چرن چاولہ (ناروے )، ڈاکٹر خالد سہیل (کینیڈا ) کے مجموعے بھی قابلِ ذکر ہیں ۔

Leave a Comment