مختصر کہانی مختصر کہانی تقریب ۲۰۱۵

ماں

ایک تھکا دینے والی سوچ نے جانے کب سے مجھےاپنے حصار میں جکڑا ہوا تھا ، دنیا میں ماں سے بڑی کوئی نعمت نہیں اور ماں پریشان ہو تو کیسے سکون مل سکتا ہے ، اس کی دنیا کا اندھیرا اور اس اندھیرے پر اس کا کڑھنا اور شاکی رہنا میرے لیئے بہت تکلیف دہ تھا، ماں کی بجھی ہوئی زندگی کیسے روشن ہو؟ میں یہی سوچ سوچ کے پاگل ہوا جا رہا تھا کہ اچانک ماں کی آواز سنائی دی میں تیزی سے باہر کی طرف لپکا
ماں برآمدے میں بچھی چارپائی پر بیٹھی تھیں ، میں نے ان کے ہاتھ پکڑ لیئے
“جی ماں”
” آ پتر بیٹھ ” میں ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا وہی مانوس سی خوشبو میرے نتھنوں سے ٹکرائی
ماں کے نرم ہاتھ میرے ماتھے پر جمے تھے، وہ بہت نحیف آواز میں بول رہی تھیں وہی سارے قصے جو میں کئی بار سن چکا تھا لیکن ہر بار ان کا لطف الگ محسوس ہوتا تھا
جو ماں نے ہمارے لیے کیا ہے کیا ہم نے ان کے لیے کچھ کیا ، شایدکر بھی نہیں سکتے ، آج ان کی آنکھیں نہیں مگر پھر بھی وہ اپنے سب کام کر لیتی ہیں ، نوے سال کوئی چھوٹی عمر نہیں ہوتی میں ان کی بے نور آنکھوں کو دیکھ رہا تھا بے اختیارمیرے لبوں سے دعا نکلی”الله کوئی معجزہ کر میری ماں کی آنکھوں کا نور اسے لوٹا دے ”
” بیٹا بدن کی آنکھ بے نور ہو تو روح کی آنکھ کھل جاتی ہے سب صاف صاف نظر آتا ہے جیسے تیرا پریشان چہرہ مجھے دکھائی دے رہا ہے،، انھوں نے انگلیوں سے ٹٹول کر میرا چہرہ چھواء
” تُو پریشان مت ہو میں سب دیکھ سکتی ہوں ، بس سوچ بدلنے کی بات ہوتی ہے” وہ ایک دم مطمئن دکھائی دینے لگیں اور میرا دل بے اختیار اس مالک کے حضور جھک گیا

Leave a Comment