اظہاریہ مختصر کہانی تقریب ۲۰۱۵

مختصر افسانہ اور مختصر کہانی ۔۔۔۔ ابتدائیہ ۔۔۔ جمیل الرحمان

یوں سمجھئے کہ ہم سب اس ایونٹ کی وساطت سے ایک ایسے الاؤ کے گرد اکھٹے ہوئے ہیں ۔جسے ایک گرم یاستا روں کی روشنی سے بھری رات میں کسی صحرا کی
سرد ریت یا کسی ساحل پر دہکایا گیا ہے ۔یا ہم کسی طوفانی رات میں کسی غار میں بند اس الاؤ کے گرد اس رات کے گزرنے کے منتظر ہیں اور وقت گزاری کے لیے سوائے باتیں کر نے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔۔ایسے میں کوئی کہتا ہے ۔آؤ میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں ۔اور پھر وہ کہانی شروع ہو جاتی ہے ۔اس کہانی کے کئی ڈھنگ ہو سکتے ہیں ۔ایک رنگ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رات ،،،،،،،ہے کچھ لوگ ایک الاؤ کے گرد بیٹھے ہیں اور کوئی کہتا ہے کوئی نا مختتم کہانی کہو ۔ایک شخص بول اٹھتا ہے کہ یہ کہانی میں کہوں گا ۔وہ کہتا ہے کہ ایک ،،،،،،،رات میں ایک الاؤ کے گرد کئی لوگ جمع ہیں اور رات کاٹنے کے لیے کوئی کہتا ہے کہ کوئی نامختتم کہانی کہو ۔ایک شخص بول اٹھتا ہے۔آؤ یہ کہانی میں تمہیں سناتا ہوں ۔رات تھی اور کچھ لوگ،،،،،،،،،،، اور یہ مختصرکہانی چند الفاظ میں ہی گردش کرتی رہتی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتی ۔
سو کہانی ہمارے لاشعور اور تحت الشعور میں اپنے ارد گرد کے ماحول کے مشاہدے اور روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے کشید ہو کر ایک خام مواد کی شکل میں بہر صورت موجود ہوتی ہے ۔جسے ہمارے خواب ،خواہشیں،تخیل اور حقائق کے تخلیق کردہ شعوری ردّ عمل مہمیزلگا کر اظہار کے کسی سانچے میں ڈھال کر اسے فن پارے کا وجود عطا کر دیتے ہیں ۔غاروں کی زندگی سے لے کر موجودہ مہذب ترقی یافتہ عہد تک یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انسان کہانی کہنے اور سنننے سے ماں کی گود کی طرح آشنا ہے۔
میں نے اوپر چند الفاظ پر مشتمل ایک کہانی کا منظر نامہ پیش کیا ہے ۔جو اپنے ایجاز اور چند الفاظ کی تکرار کے باوجود کبھی ختم نہیں ہوتی ۔جس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے اختصار کی گردش میں کوئی ایسا سیّال عنصر ضرور ہے جو اس مختصر کہانی کے خاتمے کی راہ میں روک ہے اور اپنے بہاؤ میں سب کچھ سمیٹتا چلا جاتا ہے ۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس کی اُس مخفی قوت کو دریافت کیا جائے ۔جو خود میں بہت کچھ سمو لینے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ایک اچھا مختصر افسانہ یا منی کہانی اُس سیّال عنصر کی اسی مخفی قوت کے کسی نہ کسی پہلو کے اظہار کا مظہر ہوتی ہے۔
کہنے کو مغرب میں مختصر افسانے نے باضابطہ طور پر انیسویں صدی میں جنم لیا اور ایڈگر ایلن پو کے بعد چیخوف نے اسے اپنے کمال کی انتہا پر پہنچا دیا ۔لیکن دیکھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ مشرق میں یہ روایت کہیں پہلے سے موجود تھی ۔تمام مذہبی صحائف مختصر کہانیوں سے بھرے پڑے ہین اور فارسی میں شیخ سعدی کی گلستان سعدی اور بوستان سعدی ،مولانا رومی کی مثنوی میں مختصر ترین حکایات مغربی شارٹ سٹوریز سے کہیں پہلے اس کا بیج بو چکی تھیں ۔چھوٹی چھوٹی اخلاقی حکائییتں جو براہ راست زندگی کی تہذیب سے متعلق تھیں ۔اور کاروبار حیات انسانی سے جن کا سروکار تھا ۔انسانی باطن کی کامیاب تصویر کشی کرتی نظر آتی ہیں ۔۔
اردو میں سعادت حسن منٹو اور جوگندر پال کے جگائے ہوئے جادو کی تاثیر طویل کہانیوں کی نسبت کم نہیں تھی ۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ مختصر کہانی کو ابھی تک سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا گیا
سوال یہ ہے
کہ کیا مختصر یا منی کہانی صرف وقت کا ضیاع ہے یا عہد حاضر کی مصروف زندگی میں اس فن کی بازیافت کا ایک عمل ہے۔جس کا وظیفہ ہمیں انسانی باطن اور زندگی کے نت نئے پہلو ؤں سے آگاہ کرنے کا وسیلہ بن سکتا ہے ؟
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایک مختصر کہانی اپنی افادیت اور جمالیاتی قدر میں کسی طویل کہانی کا متبادل نہیں ہوتی؟یا غیر ضروری اور غیر متعلق جزویات کو حذف کر کے اپنے مرکزی نقظے کے اظہار میں زیادہ متاثر کن اور جامع نہیں ہوتی؟؟
تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایک مختصر کہانی کے موضوعات واقعاتی ،اخلاقی ،سماجی اور نجانے کیا کیا ہونے کے باوجود متنوع نہیں ہوتے ۔؟ پھر اس پر توجہ مبذول نہ کرنے کا کوئی ٹھوس سبب کیا ہو سکتا ہے؟
اور آخری اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا کہانی کار اس عنصر کی مخفی قوت کو آشکار کرنے کی اہلیت رکھتا ہے جو اسے زمان و مکان سے ماورا کر دیتی ہے اور اختصار کے باوجود اس کی سیّالی کیفیت سے آفاقی موضوعات کے اظہار کا راستہ تلاش کرتی ہے؟؟؟
ہمارا یہ ایونٹ انہی سوالات کے کچھ جوابات تلاش کرنے کی ایک کاوش ہے!!!
)

Leave a Comment