مختصر کہانی مختصر کہانی تقریب ۲۰۱۵

امید

وہ کل ایک مدت کے بعد مجھے راستے میں یونہی اچانک مل گیا۔بہت دیر ہم اک دوسرے کو گلے لگاے اس احساس کو کھوجتے رہے جو غم روزگار نے چھین لیا اور ہمیں اتنی فرصت بھی نہ دی کہ کبھی اک دوسرے کی خبر ہی لے لیتے۔
پھر ملال اور خوشی کے ملے جلے احساس کے ساتھ ہم دھیرے دھیرے قدم گھسیٹتے قریبی پارک کے ایک پر سکون کونے میں رکھے بنچ پر جا بیٹھے۔گزرے وقت کی بھولی بسری نجانے کتنی باتیں اور قصے بھی جیسے آلتی پالتی مارے ہمارے بیچ آ بیٹھے اور کئی بار ایسا ہوا کہ ہم ہنسے اور ہنستے ہنستے ہماری پلکیں بھیگ گئیں۔
یوں تو اس بیچ کتنے ہی موضوعات پر بات ہوئی مگر سب سے عجیب اور تشویش طلب موضوع اس کے والد صاحب کی وہ عجیب و غریب بیماری تھی پہلے جو کبھی دیکھی نہ سنی۔۔!
اس نے بتایا کہ کوئی سال ہونے کو آیا ابا جی عجیب مرض کی لپیٹ میں ا گئے ہیں کہ جس کا کوئی علاج بھی دکھائی نہیں دے رہا۔کیا حکیم کیا ڈاکٹر سبھی تھک گئے مگر سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر اس بیماری کو کیا کہا جائے۔۔؟
میں نے متجسس لہجے میں پوچھا آخر ایسا کیا ہوا انہیں۔۔؟
اس نے جواب دیا یار عجیب بیماری ہے ۔ابا جی اگر پہلے سے سنی ہوئی کوئی بات سن لیں تو ہنسنے لگتے ہیں۔میں نے کہا حیرت ہے ہار یہ کیونکر ممکن ہے۔۔؟بولا یہی تو اصل مسئلہ ہے کوئی یقین بھی نہیں کرتا مگر یہ سچ ہے۔اور پھر ایک ٹھنڈی سانس لینے کے بعد بولا یار ایک مصیبت یہ ہے کہ ابا جی کو سیاست اور ٹی۔وی پہ خبروں کا ایسا چسکا ہے کہ روٹی بھلے نہ ملے یہ دو چیزیں ضروری ہیں۔میں نے کہا ہاں ہاں مجھے یاد ہے جب نیا نیا ٹی۔وی آیا تھا تمہارے گھر تو محلے میں واحد تمہارا گھر تھا جہاں ٹی،وی تھا اور ہم سب بچے سر شام تمہارے گھر کھنچے چلے آتے تھے۔لیکن خبر نامہ لگتے ہی تمہارے ابا کہتے تھے لو بھائی اب تم سب بچے دوڑو میرا ٹی،وی دیکھنے کا ٹائم شروع ہو گیا ہے۔۔
اس نے بھیگی ہوئی پلکوں سے میری طرف دیکھا اور بولا یار تمیارا حافظہ کتنا اچھا ہے۔۔بس سمجھو ان کا یہ شوق آج بھی اسی طرح قائم ہےمگر اس شوق نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔تب تو پھر بھی خبروں کا کوئی خاص وقت مقرر تھا پر اب تو دن رات خبریں چل ریی ہیں اور ابا جی ہیں کہ خبریں سنے جا رہے ہیں اور ہنس ہنس کے دوہرے ہوے جا رہے ہیں۔مجال ہے جو کسی کی مانیں۔ بجلی جاے تو ہم شکر کرتے ہیں۔اس شب و روز کی ہنسی سے ان کے پھیپھٹرے جواب دہنے لگے تھے مگر خدا کا شکر ہوا کچھ عرصے سے ایک امید پیدا تو ہوئی ہے۔ میں نے قدرے اشتیاق سے پوچھا کیا؟ وہ بولا ان کی قوت سماعت تیزی سے ختم یوتی جا رہی ہے ۔اہک ایک بات کو کئی کئی بار دہرانا پڑتا ہے تب جا کے سنتے ہیں۔میں نے کہا نہیں یار یہ کوئی شکر کا مقام تھوڑا ہی ہے تمہیں ان کا چیک اپ کروانا چاہیے۔اس پر اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوے کہا یار بہرہ ہو جانا مر جانے سے تو بہتر ہے نا۔۔؟میں کچھ دیر کوئی جواب نہ دے پایا اور پھر آہستہ آہستہ اثبات میں سر ہلاتا اس سے اجازت لی اور گھر کو ہو لیا۔۔۔!

Leave a Comment