مختصر کہانی مختصر کہانی تقریب ۲۰۱۵

“وہ کون تها؟”


ٹرنگ، ٹرنگ…” فون کی گھنٹی بجی. میری نظر گهڑی کی طرف اٹھی. رات کے 2 بج رہے تھے. یہ کون ہو سکتا ہے اس وقت؟ میں سوچتی رہی کہ فون اٹھاوں یا نظر انداز کروں؟ میں کوئی فیصلہ نہی کر پا رہی تھی کہ کیا کروں.گھنٹی مسلسل بجتی رہی…کیسا ڈهیٹ بندہ یا بندی ہے کہ فون بند ہی نہیں کر رہا. آخر کار یہ سوچ کر کہ کہیں اسکی آواز سے گھر والے بیدار نہ ہو جائیں، میں نے فون اٹها لیا. آہستہ سے میں نے پوچها..
“کون؟” …
دوسری طرف سے کسی نے سرگوشی کی..
“میں ہوں” ..
“میں کون؟” میں نے پھر پوچھا..
“بختاور، تم نے میری آواز نہیں پہچانی ؟”
میں ایک لمحہ کے لئے سکتے میں آ گئ… بختاور کے نام سے پکارنے والا تو 12 سال پہلے ہی منوں مٹی تلے دبا ہوا ہے. آخر یہ کون ہو سکتا ہے…؟ میں نے فوراً فون بند کر دیا..
کچھ ہی دیر بعد پھر فون بجا. اس وقت تک میں کچھ سنبھل گئ تھی. فون اٹھاتے ہی میں برس پڑی…
“تمہیں شرم نہیں آتی، اس وقت کسی کو تنگ کرتے ہوئے؟” میں غرائی….!
میرے سخت لہجے کے باوجود وہی دہیمی آواز آئی..
“میں ہوں، تمہارا سائیں جسے تم پیار سے سائیں منجھا کہتی تھیں…بھول گئی؟”
اس وقت میرا پورا وجود کانپ رہا تھا.. فون بند کر کے مشکل سے پلنگ کے سرہانے تک پہنچ پائی . شکر کیا رات سونے سے پہلے کمرے میں پانی رکھ لیتی ہوں. پانی پیا تو کچھ جان میں جان آئی. .لیکن پریشان رہی کہ آخر وہ کون ہوسکتا ہے.؟ سونے کی کوشش کی لیکن نیند اب کہاں آنی تھی. میں دعا پڑھتی ہوئ لیٹ گئ.
“ٹرنگ ٹرنگ…” فون بولا. اب تو دل کی تیز دھڑکنیں بھی سنائی دے رہی تھیں.. جسم ایک بار پهر بری طرح سے کانپ رہا تھا.
لیکن ایک جستجو تھی کہ آخر یہ ہے کون..میں نے فون اٹھایا ..
“آخر آپ کیا چاہتے ہیں؟”
“تمہیں بختاور، تمہیں…چلو گی میرے ساتھ؟”
فون پر دوسری جانب سے میرے استفسار پر یہ جواب تھا..
میں نے پوچھا “کہاں؟”
“جہاں میں رہتا ہوں” جواب آیا.
میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اورا شکووں کی بارش کر دی..
“اگر آپ واقعی میرے سائیں ہیں تو مجھے چھوڑ کر کیوں گئے؟ کبھی سوچا میرا کیا ہو گا جو ایک قدم آپکے بغیر نہیں چل سکتی تھی،میرا نہیں تو ان دو معصوم بچیوں کا سوچتے جنکے معصوم سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا میرے پاس جب وہ پوچھتی تھیں کہ آخر ہم لوگوں کے بابا سائیں ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتے ، ہمیں اب سکول سے کیوں نہیں لینے آتے ، باہر گھمانے کیوں نہیں لے جاتے…!! ”
میں زار و قطار رونے لگی یہاں تک کے میری ہچکی بندھ گئ…
“پلیز مت رو ، اب میں آگیا ہوں..تم پریشان نہ ہو، سب ٹھیک ہو جائگاج، بس تم میرے ساتھ چلنے کی تیاری کرو..” ..
“نہیں، میں کہیں نہیں جاسکتی اپنی بچیوں کو چھوڑ کر..” میں نے کانپتی آواز سے جواب دیا.
“تمہیں چلنا پڑیگا..”
خوف نے ایک بار پهر مجھے جکڑا.. میں نے فون بند کر دیا اور درود شریف پڑھنے لگی. پھر نہ جانے کب آنکھ لگ گئی…
“ٹرنگ ٹرنگ” کی آواز ایک بار پھر کمرے میں گونجی… میں ہڑ بڑا کے اٹهی تو دیکھا کہ فجر کی نماز کا الارم بج رہا تھا. میں نے اطمینان کا سانس لیا…اور کلمہ پڑهتی ہوی آٹھ بیٹهی. پلٹ کے دیکھا تو تکیہ گیلا تھا .

Leave a Comment