خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں
کہ جوریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے بھی یہ نہ مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں
خواب تو روشنی ہیں
نوا ہیں
ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رُکتے نہیں
ظلم کے دوزخوں سے پُھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے عَلَم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نُور ہیں
خواب سُقراط ہیں
خواب منصُور ہیں
خواب مرتے نہیں
مجھے آج بھی یاد ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ احمد فراز کی یہ نظم تمھیں بہت پسند تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔
تم اُس کو اکثر دہرایا کرتے تھے۔ پہلی بار تم نے مجھے یہ نظم ہماری شادی کی پہلی رات خود احمد فراز کی کتاب “جاناں جاناں” سے تحتِ الفظ پڑھ کر سنائی تھی۔ گو کہ مجھے اُس وقت شعر و شاعری سے کچھ خاص لگاوؑ تو نہ تھا اِس کے باوجود فراز صاحب کی یہ نظم مجھے بہت پسند آئی تھی اور جس دلفریب انداز میں تم نے اِسے پڑھا تھا، آج تیس سالوں بعد بھی میں بھول نہیں سکی ہوں۔
یہ تو پھر کچھ دیر بعد مجھے پتہ چلا کہ تم کو یہ نظم صرف اس لئے ہی پسند نہ تھی کہ یہ تمھارے پسندیدہ شاعر فراز صاحب کی ایک بہت اچھی نظم ہے۔ بلکہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ تم خود بھی ایک خواب دیکھنے والے اور اُن پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔
ہماری شادی جو ہمارے والدین کی پسند اور کوششوں سے ہوئی تھی کے وہ ابتدائی سال مجھے آج بھی یاد ہیں جو ہم نے کم و بیش کسمپرسی کی حالت میں گزارے۔ اُن حالات میں بھی تمھارا حوصلہ، تمھارے چہرے کی وہ دلفریب مسکراہٹ اور تمھارا آنے والے اچھے دنوں کے ایک خوابِ مسلسل میں کھوئے رہنا، مجھے بھلائے نہیں بھولتا۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ اُس مشکل دور میں بھی تمھیں جس روز تنخواہ ملتی، اُس دن تم میرے ہزار منع کرنے کے باوجود بھی دو چیزیں خریدنا ہرگز نہ بھولتے۔ میرے لئے کوئی نہ کوئی تحفہ اور دوسرا اپنے لئے کوئی کتاب۔
میں تم سے ہمیشہ بحث کرتی۔ “آخر مہنگائی کے دور میں جبکہ ہمارا ہاتھ بھی ہمیشہ پیسوں سے تنگ ہی رہتا ہے تو پھر اِس فضول خرچی کی بھلا کیا تک ہے؟”۔
تم پہلے مسکرا دیتے اور پھر کہتے۔ “میری جان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، تم کیوں ہر وقت پیسوں کی فکر میں دبلی ہوئی جاتی ہو، ارے یہ پیسے تو پھر آ جائیں گے لیکن یہ زمانے جو بیتے تو پھر واپس نہ آئیں گے”۔
۔”اور وہ آخری تاریخوں میں جو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے، اُس کا کیا؟”۔ میں تمھاری بات سُنی ان سُنی کرتے ہوئے کہتی۔
۔”ارے گولی مارو آخری تاریخ کو، جب آئے گی تب دیکھ لیں گے”۔ تم شوخی بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہتے۔ “بس یہ کچھ دنوں ہی کی بات ہے، تم دیکھنا ثریا، انشاءاللہ ہم بہت اچھی زندگی گزاریں گے اور ہم ہر وہ خوشی ضرور حاصل کریں گے جن کے ہم نے سپنے دیکھ رکھے ہیں”۔
۔”لیکن کیسے؟، میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کرائے کے گھر میں تو ہم رہتے ہیں۔ روپیہ پیسہ ہمارے پلے نہیں، کوئی ملکیت جائیداد ہمارے پاس نہیں۔ تو پھر یہ سب بھلا ہوگا کیسے؟”۔
۔”ہاں تم کہتی ٹھیک ہی ہو، یہ سب کچھ تو ہمارے پاس ہرگز نہیں۔ لیکن ہمارے پاس حوصلہ ہے، ہمت ہے، ہماری محنت ہے اور سب سے بڑھکر ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ ہمارے ساتھ ہمارے خواب ہیں اور تم جانتی ہو نہ کہ خواب مرتے نہیں”۔
یہ ساری باتیں کہتے ہوئے تمھارے چہرے اور آنکھوں میں لہراتی وہ چمک مجھے آج بھی یاد ہے۔
تمھاری اُن باتوں سے زِچ ہو کر میں ہمیشہ یہ شعر پڑھ دیتی۔
۔؎ خواب پھر خواب ہیں خوابوں سے نہ کر پیار صنم
کون جانے اِنہیں تعبیر ملے یا نہ ملے
جسے سن کر تم پہلے تو بڑے زور کا قہقہہ لگاتے اور پھر مذاق اڑانے والے انداز میں کہتے: “ہاں بس تمھیں تو لے دے کہ ایک یہ ہی شعر یاد ہے اور وہ بھی ایک فلمی گیت سے چُرایا ہوا”۔
سچ ہی تو کہتے تھے تم۔ ویسے بھی اُس زمانے میں مجھے شعر و ادب سے یوں بھی کچھ خاص لگاوؑ نہ تھا۔ وہ تو شادی کے بعد ہم نے سنیما ہال جا کر جو پہلی فلم دیکھی تھی اُس میں شامل مہدی حسن کے گائے ایک گیت کے مکھڑے کے بول تھے۔
ہم کسی حد تک دو متضاد طبیعتوں کے حامل افراد تھے۔ تم ایک خواب دیکھنے والے ایسے شخص جو اپنی بے سر و سامانی اور بظاہر کسی پختہ وسیلے اور سہارے کی موجودگی کے باوجود بھی ہمہ وقت آنے والے روشن دنوں کے منتظر، اپنی بانہیں وا کئے ہنستے مسکراتے اُن کے استقبال کے لئے چشم ما روشن دلِ ما شاد کی عملی تصویر بنے رہتے۔
اِس کے برعکس میں ایک ایسی لڑکی جس کا دل و دماغ ہر لحضہ آنے والے دنوں کے اندیشہ ہائے سود و زیاں میں غلطاں و پیچاں رھ کر کسی حد تک اپنے آج کو فراموش کردیتا۔ جبکہ تم ہر دن ہر لمحے میں جینے والے اور ہر دن اور ہر لمحہ کو جینے والے ایک نٹ کھٹ سے نوجوان۔
سچ پُوچھو تو وہ تمھارے اچھے دنوں کے سپنے کوئی اب ایسے انہونے بھی نہ تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!۔
تم اپنے کل اور بقُول خود تمھارے، “روشن اور سُنہرے مستقبل” سے بھلا چاہتے ہی کیا تھے؟
زندگی کے وسیع تر دامن سے تم نے اپنے لئے مانگا ہی کیا اور کتنا تھا؟
بھلے ہی تم ایک سپنے دیکھنے اور ان میں گم رھ کر خوش رہنے والے انسان تھے لیکن تمھارے وہ سپنے خُود تمھاری سادہ طبیعت کے جیسے سادہ ہی تو تھے۔ رہنے کو ایک اچھا سا گھر۔ اُس گھر کو اپنی قلقاریوں سے زندگی بخشتے دو بچّے۔ زندگی ہنستے کھیلتے گزر جائے بس اتنا ہی مٹھی بھر روپیہ۔ پڑھنے کو ڈھیر ساری کتابیں۔ سننے کو رُوح کی گہرائیوں تک اتر جانے والا مدھر سنگیت۔ فارغ اوقات میں سیر سپاٹے یا پھر من پسند فلمیں۔
سُنہری رنگت کے تو تم غلام بے دام تھے۔ لیکن سُنہری رنگت والے سونے کے نہیں بلکہ چائے کی گرما گرم بھاپ اُڑاتی پیالی میں ڈوبتے سورج کی گہری سُنہری رنگت کے۔ گھُومنے پھرنے کے لئے پرانے ماڈل ہی کی سہی مگر ایک چلتی ہوئی گاڑی۔
تمھاری ایک بڑی خواہش اُن تمام تحریروں کا مجمؤعہ شائع کروانا بھی تو تھی جو تم نے اپنی اخبار کی ملازمت کے دوران لکھی تھیں۔ ہاں البتہ ایک شوق تمھارا رئیسانہ سا ضرور تھا۔ تمھیں ساری دنیا بطورِخاص امریکہ اور انگلستان دیکھنے کا بہت شوق تھا اور جب میں تمھیں اس بات کو لے کر چھیڑا کرتی تو تم حسبِ عادت مسکراتے ہوئے کہتے:۔
۔”میری جان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ سفر پیسوں سے نہیں مقدر سے ہوا کرتا ہے”۔ کتنا سچ کہتے تھے تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔
ہاں البتہ مجھے یہ تو کہنا ہی پڑے گا کہ تمھاری پُرامیدی اور مستقبل کے حوالے سے تھماری وہ پُرخیالی محض زُبانی جمع خرچ تک ہی محدود نہ تھی۔ تم اچھے دنوں کی تلاش میں بن پڑی محنت اور ہر قابلِ عمل تدبیر میں لگے رہتے۔ ہماری شادی کے فوراً بعد ہی سے تو تم دو نوکریاں کرنے لگے تھے۔ ایک دن کے وقت کسی دفتر میں دوسری رات دیر گئے تک ایک اخبار میں۔
ہاں رات دیر گئے پر مجھے یاد آیا کہ اکثر کڑکتی سردیوں کی راتوں اور برستی برساتوں میں تم اخبار کے دفتر سے واپس گھر آتے ہوئے کہیں سڑک پر کسی دکان کے چبوترے یا ریڑی کے نیچے سردی کی شدت سے ٹھٹھرتے ہوئے بھیگے کتے کے پلے یا بلی کے بچّے کو اخبار میں لپیٹ کر گھر لے آتے۔ پہلے تولیئے سے رگڑ رگڑ کر خشک کر کے نیم گرم دودھ پلاتے۔ پھر کسی پرانے لحاف میں لپیٹ کر اُس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر پھیر کر سُلانے کی کوشش کرتے۔ جب وہ قدرے خُوابیدہ سا ہوجاتا تو تم خود تو کھانا کھا کر لمبی تان کر سو رہتے لیکن اُن کی چیاوؑں چیاوؑں اور میاوؑں میاوؑں ساری رات مجھے جگائے رکھتی۔ تمھاری آئے دن کی اِن حرکتوں پر میں کتنی بھی سیخ پا ہوتی مگر تم کسی بھی بات کا اثر لئے بغیر اپنے چہرے پر وہی اپنی ٹریڈ مارکہ مسکراہٹ سجائے مجھے جانوروں سے حسنِ سلوک کا درس دیتے رہتے۔ اگلی صُبح تمھارے دفتر چلے جانے کے بعد میں تمھارے دیئے درسِ حیوانیت کو بالائے طاق رکھ اُسے بناء کسی عزت و احترام کے لعن طعن کی توپوں کی سلامی دیتے ہوئے گھر سے رخصت کر دیتی۔
چلو یہاں تک تو بات ٹھیک تھی۔ مگر یہ کیا کہ جہاں کسی ضروت مند نے دستِ سوال دراز کیا وہاں تم نے اپنے بٹوے کا آخری نوٹ بھی میری شعلہ بار نظروں کی پرواہ کیے بغیر ہی اُس کی ہتھیلی پر دھر دیا۔
دن گزرتے رہے۔ اللہ نے ہمیں دو بیٹوں کی عظیم نعمت سے نوازا۔ ہم کرائے کے گھر سے ایک دو کمروں کے مختصر سے چھوٹے مگر ذاتی گھر میں اُٹھ آئے۔ ہتھ چھٹ روپیہ نہ سہی لیکن اُس رحمان و رحیم کے فضل سے کبھی یہ نوبت بھی نا آئی کہ کسی کے آگے دستِ طلب وا کرنا پڑا ہو۔ گاڑی نہ سہی لیکن تم نے ایک عدد سکینڈ ہینڈ موٹرسائیکل تو شادی کے چند سال بعد ہی خرید لیا تھا۔ بچّوں کے آنے سے قبل ہم دوںوں اُس پر شہر بھر کی سڑکوں پر خوب فراٹے بھرتے گھوما کرتے اور پھر بچّوں کے آ جانے کے بعد وہ بھی ہمارے اُس ہوادار سفر کے ساتھی ٹہرے۔
البتہ شادی کے بارہ پندرہ برس گزر جانے کے بعد کبھی کبھار تم دبے لفظوں میں یہ گلہ ضرور کرتے کہ ابھی تک ہم کسی بیرون ملک کے سفر کو نہیں جا سکے۔ جس پر میں تمھیں شادی کی پہلی سالگرہ پر جب ہم پہلی بار اپنے شہر کراچی سے نکل کر ایک چھوٹے اور سادہ سے پاکستان ٹور پر گئے تھے، جس میں ہماری پہلی منزل لاہور تھی، اُس کے بعد مری براستہ و مختصر قیام روالپنڈی اسلام آباد اور پھر حتمی منزل سوات کے حسین و یادگار سفر کی یاد دلاتی تو ہم دونوں گھنٹوں اُس ٹور کی باتیں کرتے اور ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے ہم وہاں شادی کی پہلی سالگرہ پر نہیں ابھی کل ہی تو گئے ہوں۔
وقت کا پہیہ یونہی چلتا رہا۔ تمھارے سیاہ بالوں میں اب چاندی اور اِٹہلاتے سے شگفتہ لہجے میں تردد اُتر آیا تھا۔ خیر بالوں کی چاندی تو وقت اور عمر دونوں ہی کا تقاضہ تھا لیکن تمھارے لہجے میں در آنے والا وہ تردد شاید اِس بات کا غماز تھا کہ تمھیں اب یہ فکر لاحق ہو چلی تھی کہ کیا تمھارے دونوں بیٹے تمھاری طرح ہی کی زندگیاں گزار دیں گے۔ تم نے کبھی یہ ظاہر تو نہیں کیا لیکن شاید تمھیں یہ ملال تھا کہ پوری ذندگی تم نے بھرپور محنت کی اور گو کہ تم نے کبھی مجھے اور بچّوں یاسر اور باقر میں سے کسی کو بھی حتّی المقدُور کوئی کمی نہ آنے دی تھی لیکن اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود تم اتنا پس انداز نہ کرسکے تھے کہ اِنہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک روانہ کر سکو یا یہیں کسی چھوٹے موٹے کاروبار ہی کا آغاز کروا دو۔
شاید تمھیں یہ اندازہ نہ ہو کہ آج بھی یاسر اور باقر تمھاری محبتوں، محنتوں اور قربانیوں کے تہِ دل سے معترف ہیں اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ آج وہ جو بھی ہیں خدا کے بعد اپنے والد ہی کی مرہونِ منت ہیں۔
ہمارا بڑا بیٹا یاسر تو اب ماشاءاللہ سے امریکہ جا بسا ہے جبکہ باقر یہیں کراچی میں ہی ایک بہت ہی اچھے ادارے کے لئے کام کررہا ہے۔ اللہ اُسے بُری نظر سے محفوظ رکھے بہت اچھی اور مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔
ہاں یاد آیا۔ وہ جو تم کہتے تھے نہ کہ “سفر پیسوں سے نہیں مقدر سے ہوا کرتا ہے”۔ سو فیصدی درست کہتے تھے۔ اب میں موسمِ گرما میں یاسر کے پاس امریکہ چلی جاتی ہوں اور موسمِ سرما باقر کے پاس گزارتی ہوں۔
یاسر نے تو اپنے امریکہ والے گھر کا ایک پورا کمرہ دیوار در دیوار کتابوں سے ٹھیک اُسی طرح سے سجا رکھا ہے جسے کبھی تم نے سوچا تو ضرور تھا لیکن عملی جامہ نہ پہنا سکے۔
تمھیں یاد تو ہوگا کہ یاسر کو بھی تھماری طرح سے لکھنے لکھانے کا بہت ہی شوق تھا اور جب اُس کا پہلا مضمون نہ جانے کس اخبار میں شائع ہوا تھا تو وہ اخبار اور اُس میں چھپے یاسر کے پورے نام “یاسر حماد خان” کو دیکھ دیکھ کر تمھارے چہرے پر آئی سُرخی کو میں کیسے بُھول سکتی ہوں۔ اب تو سنا ہے کہ یاسر بڑے اچھے افسانے لکھنے لگا ہے۔ لگتا ہے سال دو سال میں اُس کے افسانوں کا مجمؤعہ بھی چھپ ہی جائے گا تو اس پر یاسر کے نام کے ساتھ تمھارا نام حماد خان بھی تو چھپے گا تو یوں تمھارا صاحبِ کتاب ہونے والا ارمان بھی ان شاءاللہ ضرور پورا ہوجائے گا۔
یاسر اکثر کہتا ہے کہ ابُو کو امریکہ دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ کاش کہ اللہ اُنہیں کچھ اور عمر بخش دیتا تو میں اُن کا یہ ارمان ضرور پورا کرتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! لیکن جو اُس کو منظور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔
ویسے مجھے یقین ہے کہ اب تم جہاں ہو وہاں سے اچھی جگہ تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی اور یوں بھی تمھیں اچھی جگہیں دیکھنے اور گھومنے کا شوق تو شروع ہی سے تھا تو اب اُس جگہ سے بھی بھلا کوئی اچھی جگہ ہو سکتی ہے کیا؟
مجھے پتہ ہے تم اپنی عادت کے مطابق وہاں بھی سب کو اپنے گرد جمع کر کے اپنے پسندیدہ شاعر احمد فراز کی اپنی پسندیدہ نظم تحتِ الفظ میں سناتے ہوں گے اور ہاں اب تو فراز صاحب بھی وہیں کے مکیں ہو گئے ہیں تو تمھاری اور اُن کی تو بڑی گاڑھی چھنتی ہوگی؟
سنو حماد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!۔ اب میں تم سے جو کہنا چاہتی ہوں اور اگر تم میری بات سن سکتے ہو تو پھر غور سے سنو۔ میں تم سے وہی بات کہنا چاہتی ہوں جو تم مجھ سے کہا کرتے تھے۔ ہاں وہی بات اور یہ بات تم سے ذیادہ اور کون بہتر سمجھ سکتا ہے۔
۔”خواب مرتے نہیں”
۔
تمھارے آخری دنوں میں، میں نے یہ محسوس کیا تھا کہ شاید تم اِندر ہی اِندر اِس بات کی سچائی سے کچھ مایوس سے ہو گئے تھے۔ لیکن آج تم خُود دیکھ لو کہ یوں تو اب تم نہ سانس لیتے ہوں۔ نہ ہی تمھاری آنکھیں خواب دیکھتی ہیں۔ لیکن تم نے جو خواب دیکھے تھے وہ تمھاری جسمانی موت کے باوجود آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔ وہ خواب اب بھی سانس لیتے ہیں۔ اُن خوابوں کی دھڑکنیں اب بھی جاری ہیں۔ میں اُن کے سانس لینے کی آواز اور اُن کی دھڑکن جو میرے اُردگرد فضاوؑں میں پھیلی ہوئی ہیں کو یوں سن سکتی ہوں جیسے وہ خُود تمھاری اپنی ہی سانسیں اور دھڑکنیں ہوں۔ تمھارے وہ خواب اب بھی مجھے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ روشنی بکھیرتے ہیں۔ یاسر اور باقر کی صُورت میں۔
اچھا حماد۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ !، رات کافی ہوگئ ہے اور میں بھی اب ڈائری لکھتے لکھتے تھک چکی ہوں۔ اب مجھے اجازت دو مجھے اب سو جانا چاہیئے۔۔ ویسے بھی صبح میری فلائٹ ہے۔ ارے بھئی یاسر کے پاس گرمیاں گزارنے جو جارہی ہوں۔ تمھارے اُن ہی خوابوں کی تلاش میں جو کبھی تم نے دیکھے تھے اور ویسے بھی اب اِس عمر میں میرے پاس سوائے خواب دیکھنے کے اور کام ہی کیا ہے اور تم تو جانتے ہی ہو نا کہ خواب مرتے نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ !!!۔