ڈائری کا ایک ورق

ڈائری کا ایک ورق تحریر احسن عثمانی

دوستو!
عجیب کیفیت ہے، زندگی کی سترہ بہاریں دیکھ چکا ہوں. جب سے ہوش سنبھالا ہے ذہن کچھ نہ کچھ رموز میں الجھا رہا ہے.

زندگی کبھی اس قدر دل فریب لگی کہ جی چاہتا تھا کہ وقت کی قید سے رہا ہو جاؤں اور کبھی یوں بھی گزاری ہے کہ قبائے زیست وجود بدن پر تنگ ہوئی.

یہ زندگی تنگ ہورہی ہے
یہ پیرہن ناپ کا نہیں ہے

نہ جانے کیوں ہمیشہ دل پر اک وحشت سی مسلط رہتی ہے….. خوشی اداسیوں کے شجر تلے کسی کم سن محبوبہ کی طرح ملی ہے، جسے ڈر ہو کہ کوئی دیکھ نہ لے… وہ بھی شاید مجبور ہوگی… ہاں! الوداع کے وقت جھلا اٹھتا ہوں.

آج جب کہ اٹھارہ سال کا ہورہا ہوں، اپنے احباب کے موصول ہونے مبارک بادی سندیسوں کو پڑھتے ہوئے سوچتا ہوں کہ زندگی کا ایسا لخت کہاں کھودیا کہ آج بھی وہ سوال کسی اژدھے کے مانند منہ کھولے کھڑے ہیں…. زندگی کا مقصد؟ … سکون کا حصول؟ حق کی تلاش؟ راہ نجات؟ …. جتنا سوچتا ہوں اسی قدر الجھتا چلاجاتا ہوں.

اپنی ذات مجسم سوال معلوم ہوتی ہے، ایک تجسس اور حیرت کا امتزاج ہے جو مجھے زندہ رکھتا ہے.

( Facebook پر اپنے جنم دن کے حوالے سے ایک تحریر)