ڈائری کا ایک ورق

ڈائری کا ایک ورق ،، مدحت..! تحریر فرحین جمال


آج قلم ہاتھ میں ہے اور الفاظ ساتھ چھوڑ گئے ہیں. جانے کتنے ،افسانے،شاعری ،کہانیاں لکھی ہیں لیکن آج یہ قلم کسی اور ہی بات کا تقاضا کر رہا ہے اور میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں کہ میں کیا لکھوں اور کیسے لکھوں . ایسا لگتا ہے جیسے کسی طویل خواب سے جاگی ہوں ابھی ابھی بدن چور چور ہے ہر عضو تھکا تھکا بے جان !

اس مردہ تن میں کہیں تو کسی کونے میں راکھ  کے اندر کوئی چنگاری ہے ابھی جو سلگ اٹھنے کو تیار ہے بس ایسے کسی ہاتھ کی تلاش تھی جو اس راکھ کے ڈھیر میں سے شعلے کو ہوا دے .جانے کیسی عظیم ساعت تھی جب میرے دل کے مردہ خانے میں ،برف کی سلوں میں حدت محسوس ہوئی اور برسوں کی جمی برف آہستہ آہستہ پگھلنے لگی .
میں نے بھی سالوں سے مندی آنکھیں کھول کر اس روشنی کی طرف دیکھا جو میری نظر کو خیرہ کیئے دے رہی تھی .یا الہی یہ کیا ماجرا ہے ،یہ کیسی روشن کرن ہے جو میرا احاطہ کئے ھوے ہے . مجھے کیوں اس طرح روشنی میں نہلایا گیا ہے؟؟ . کون سا ایسا کارنامہ انجام دیا ہے میں نے ؟ ، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا ،سوچیں منجمد تھیں ،تو دل کے نہاں خانوں سے ایک مہین سی آواز آئی ،یہ تو وہی ہے جس تو تم نے اپنی خلوت میں پکارا تھا ،جس کو آوازیں دیتے دیتے تمہاری زبان خشک ہو گئی تھی ،آج وہ تمہارے پکارنے پر چلا آیا تو حیران کیوں ہو ؟، بڑھ کر ہاتھ تھام کیوں نہیں لیتیں . میں اب بھی تذبذب کا شکار تھی .کہاں میں اور کہاں وہ ؟، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ میرا پیار،میرا عشق مجسم میرے سامنے آ کھڑا ہو ! میرا ہاتھ تھامنے کو تیار .. اس قدر کی چکاچوند نے مجھے گبھرا دیا تھا ..اپنی کم مائیگی ،کم فہمی کا شدید احساس تھا مجھے لیکن کہیں کہیں خود پر نازاں بھی تھی کہ میری پکار آخر کار اس کو میرے قریب لے ہی آئی…ابھی آداب عشق سے نا واقف ہوں اسلئے تھوڑی ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی ہے ،رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہو جاے گا . اس کی محبت،پیار دیکھ کر میں سوچ رہی تھی واقعی وہ سچا ہے ،میرے اپنے جذبے ہی کمزور تھے ورنہ بہت پہلے ہی اس کو جان جاتی،پہچان لیتی ..! خیر وہ تو بے نیاز تھا،ماورا تھا ان سب باتوں سے ، وہ تو بس سر تا پا عطا تھا .میری حیرانی پر اس کو کوئی تعجب نہیں تھا ،میری کم علمی پر تھا ، جو حاصل عشق ہو وہ کب غافل رہ سکتا ہے .کچھ ہوش میں آ لوں تو کہوں،زبان گنگ تھی، زہن ماؤف اور میں دم بخود ..خیر اس کی اپنائیت ،خلوص اور ایثار نے میرے تمام اندیشے ؛خوف پانی کے بلبلے کی مانند اڑا دئیے .مجھ بھی اب یقین ہو چلا تھا کہ یہ وہی ہے جس کو بارہا میں نے پھول کے رنگ و بو میں محسوس کیا ،ہوا کی سرسراہٹ میں محسوس کیا ،شبنم کا قطرہ قطرہ پھول کے جگر سے ٹپکنا ، بارش کی بوندوں کا زمیں پر گر کر قہقہہ لگانا اور پھر فنا ہو جانا ، سبزکی مخمیلیں قالین پر سبک خرامی کرتی صبا ، سورج کی زرتاش کرنیں ،سب اس کا تو پرتو تھیں .بس میں ہی نا بینا تھی