ڈائری کا ایک ورق

ڈائری کا ایک ورق تحریر شاھین کاظمی

عجیب سی مِسٹی سے صبح تھی کہنے کو تو نو بج رھے تھے لیکن دھند نے ھر منظر نگل لیا تھا، زرد پڑتے گھاس اور سڑک پر جمی کہرے کی سفید تہہ اور مہین قطروں کی شکل میں گرتی برفیلی بارش میں گاڑی پھسل رھی تھی،تیز تیز چلتے وائپرز ، ھیٹر کا شور اور دھند ، اچانک ھی وہ لمحہ بہت آھستگی سے یاد کے پردے پر نمودار ھوا، وہ بھی ایک ایسی ھی صبح تھی، سرد اور دھندلی۔۔۔۔۔ اس کی بجھتی ھوئی آنکھوں کی طرح جن میں کرب، بے بسی ، بے چارگی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سا سکون تھا۔۔۔۔۔۔ میرے ھاتھوں میں دبا وہ کمزور سا ھاتھ لمحہ بہ لمحہ زندگی کی حرارت کھو رھا تھا۔۔۔ میری آنکھیں دھندلانے لگیں لیکن مجھے اپنے حواس پر قابو رکھنا تھا۔۔۔ میری آنکھوں کا بھیگنا انتہائی غیر پیشہ وارانہ رویہ ھوتا۔۔۔
ہلکی آواز سے دروازہ کھلا ۔۔۔ڈورتھی کا چہرہ سامنے تھا اس کی سوجی آنکھیں اور سرخ ناک اس کے دکھ کی گواہ تھی
“?atemt sie noch”
( وہ ابھی تک سانس لے رھی ھے؟) اس کی آواز بہت دھیمی تھی
اور میں جواب میں محض سر ھی ھلا سکی، سارا کھیل ھی آتی جاتی سانسوں کا ھے،اس نوے سالہ بوڑھی عورت کا کمزور وجود اپنی بقا کی آخری جنگ لڑنے میں مصروف تھا،اچانک مجھے اپنے ھاتھ پر ہلکے سے دباؤ کا احساس ھوا بوڑھی آنکھیں لمحہ بھر کو پوری طرح کھلیں اور آخری ہچکی نما سانس رک رک کر سینے سے آزاد ھوئی۔۔۔ ھاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ۔۔ پپوٹے آنکھوں پر ڈھے گئے ۔۔۔۔ موت کی طرف جاتی شاھراہ پر کسی بھی مسافر کے ساتھ یہ میری پہلی سنگت تھی۔۔۔۔ دل بہت زور سے دھڑک رھا تھا۔۔۔۔۔ کچھ عجیب سی کیفیت تھی۔۔۔ سوتی جاگتی سی۔۔۔۔ لگاتار دعائیں پڑھنے کے باوجود اندر کپکپی تھی ۔۔۔۔میں نے آھستگی سے اپنا ھاتھ الگ کیا۔۔۔ اس سفر میں میرا اس کا اتنا ھی ساتھ تھا۔۔۔ آگے کا راستہ۔۔۔۔ شدید دھند میں لپٹا ھوا تھا۔۔۔۔اور میری نگاھیں اسے دیکھنے سے قاصر تھیں۔۔۔۔ لیکن اتنا جانتی تھی کہ اس راستے پرکوئی کسی کا ھمسفر نہیں ھوتا۔۔۔۔۔ لاکھ چاہ کر بھی کوئی ساتھ نہیں دے پاتا۔۔ کھڑکی کے اس پار گہری دھند میں لپٹی مدھم سٹریٹ لائٹس اور خاموشی۔۔ مجھے اپنا دم گھٹتا ھوا محسوس ھونے لگا ۔۔۔ کاش کوئی بتا سکتا۔۔۔۔۔زندگی اصل میں کیا ھے ؟اس کی دونوں سرحدوں ،ابتدا اور انتہا کے درمیان یہ طویل ،پُر پیچ اور پُر خطر راستہ ۔۔ اس کی حقیقت کیا ھے؟۔ کیاکبھی ھم نےیہ جاننے کی کوشش کی ھے کہ یہ راستہ جس پر ھمیں ڈال دیا گیا ھے اس پر پھیلی ھوئی یہ اَن دیکھی دھند کیسے ختم ھو سکتی ھے؟ ختم ھو بھی سکتی ھے یا نہیں
ھم کیوں بنا سوچے سمجھے سر پٹ بھاگے جارھے ھیں۔ان ھانپتے ھوئے گھوڑوں کی مانند جن کی آنکھوں کو صرف سامنے دیکھنے کی اجازت ھو تی ھے ۔ دائیں بائیں دیکھنا ان کے لیئےممکن نہیں ھوتا۔
اس سے پہلے کہ سوالات کے دائر ے مزید پھیلتے میں نے تیزی سے سرد ھوتے بدن کو سیدھا کیا
4:25am
اور آخری سانس کا وقت لکھ کر فائل بند کردی