ڈائری کا ایک ورق

ڈائری کا ایک ورق تحریر توصیف احمد ملک

میں اسے پھر دیکھنے گیا تھا…!
اس کی زرد مسکراہٹ کی اوٹ میں زمانوں کا درد سانس لیتا ہے. اس کی دہلیز پہ کھڑا جب دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہا تھا تو سوچا… یکبارگی سوچا… کہ شاید آج اس کی مسکراہٹ کی اوٹ میں چھپی وہ زرخیز کسک ڈھونڈ سکوں گا جو دراصل میری کہانی کا انجام ہے. میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اس نے دروازہ کھولا اور وہ مسکرائی. تو ثابت ہو گیا کہ تمہارے اور میرے تعمیر کردہ اس معاشرے میں خون کے رشتوں میں “خون” ضرور بہہ جاتا ہے.
میں اسے پھر دیکھنے گیا تھا
کیونکہ کہانی اپنی تعمیر میں جوں جوں آرائش کو پہنچتی ہے اس کا سامان کرنا فرض ہو جاتا ہے. جانتی ہو اس کے جسم پر ان نشانات کی کمی بالکل نہیں تھی جو اس کے بازو اور گردن پہ آویزاں تھے. وہ ان کو زیور…. بس زیور سمجھتی ہے اور زیور بھاری ہوں تو زیور ہی رہتے ہیں. وہ ان کا بوجھ اٹھانا عقلمندی نہیں بلکہ خوش قسمتی سمجھتی ہے.اس نے مجھ سے گزشتہ دنوں پوچھا تھا کہ رشتے بس ریت کا گھروندہ ہے جسے لہجے کی موج تباہ کرنا واجب سمجھتی ہے. یہ زیور ہی اس کی ذات کے معمار ہیں. دراصل وہ بڑی خوش اسلوبی سے منزل کو پہنچ گئی ہے. اب اس کی دہلیز پہ کوئی خون کا رشتہ پہنچ جائے تو وہ مسکراتے ہوئے اسے “خون” میں رنگ دینے کا کہہ جاتی ہے. مجھے پاگل کہہ دیتی ہے لیکن چائے میں پتی تیز کرنا نہیں بھولتی.
یوں تو میرا تعاقب مسلسل گردش میں رہا کرتا ہے اور کہانیاں مسلسل طواف میں رہتی ہیں لیکن کچھ کہانیوں کو لکھنے سے زیادہ انہیں بس دیکھنے کی چاہ ہوتی ہے. اس لڑکی کی کہانی بھی ایسی ہی ہے جو ہر بار قلم کی نوک پہ قبضہ کر بیٹھتی ہے اور میں جھرجھری لےکر سہم جاتا ہوں. نوک باریک سہی لیکن وزن اٹھانے کے لائق ہوتی ہے.لیکن وزن میں چھید کا ڈر حاوی ہوجائے تو تم جانتی ہو کہ… توصیف احمد کو راستوں میں گم ہوتے دیر نہیں لگتی.
اس کی پلکوں کی بستی میں بڑی گہری شب چھائی دیکھی ہے. وہاں کے باسی تصور میں سورج کو ابھرتا دیکھ کر اشک پی لیتے ہیں لیکن وہ لڑکی… بس نام کو تو سحر ہے لیکن زندگی کی اس اندھی شب سے مات کھا کر رو دیتی ہے.ایک بات بتاؤں تو میں اب سوچنے لگا ہوں کہ اس کہانی کو لکھنے کی بجائے تمہارے لیے سنبھال کر رکھ لوں. عمر کے کسی حصے میں, یا حیات کے کسی پوشیدہ قصے میں تم سے ملا تو تمہیں ضرور سناؤں گا کہ اس کی آواز میں بس ایک لمبی مسافت طے کرنے والا درد بھٹکتا ہے. لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہجر جڑیں مضبوط کر لے تو وصل کی چاہ یہیں انہی جڑوں میں دفن ہو جاتی ہے.
اس سے پوچھا کہ تمہارے حلق سے ہر لفظ اداسی کی بکل مارے کیوں نکلتا ہے تو کہنے لگی
“مسافروں کی قمست کا حال احوال نہیں لیتے…انہیں آتا جاتا دیکھ کر ان کے مٹی سے بھرے چہرے پڑھنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے…آنکھوں میں جب تیل جل جاتا ہے تو … اداسی کی بکل مارنی پڑتی ہے سیاہ پوشا… ورنہ دل کے سامنے بڑی بدنامی ہوتی ہے… انہیں… بڑی اوکھی قسم کی شکل ہے اس اداسی کی… سمجھ کہ بس تیل جل کر تیرے دوپٹے جیساہ کالا ہو گیا ہے…تو کہتا ہے…صرف تو کہتا ہے کہ رات کو میرے گھر کا دروازہ بڑا روشن کھلتا ہے… تو میں کہتی ہوں کہ اردو ٹھیک سے کہنی سننی نہیں آتی مجھے لیکن تیل جل کر تیرے دوپٹے جیسا کالا ہو جائے تو بچپن کا یاد کیا ہوا یہ گانا بس ایویں ہی ہونٹوں پہ چڑھ جاتا ہے…اک بات تو بتا…تو آنکھوں میں کاجل لگاتا ہے ؟…”
میں مسکرا دیا تھا.
“نہیں…میں کاجل نہیں لگاتا”
سچ بھی یہی ہے کہ میں خود کاجل کبھی نہیں لگاتا.یہ لڑکی میری کہانی “ادھ جلی بوند” کی لڑکی ہے. بلکہ وہ لڑکی “ادھ جلی بوند” ہے. میں نے سوچا کہ اسے تراش لوں گا لیکن اسی سوچ میں ڈوبے ہوئے اس کے تعاقب نے ایک نئی کہانی کو جنم دیا جو بس یہ کہہ کر راکھ ہو گئی کہ
” سوچو تو اس کہانی کی گرہ براہ راست ادھ جلی بوند کے دل میں پنہاں ہے…”
ایک نئے سفر کی ابتداء ہی اس کہانی کا بہترین انجام ہے. میں بس تم سے یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کہانی کی آنکھوں میں لفظ جل جائیں تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا فنی کوتاہی یا مہارت نہیں بلکہ بے بسی کی اعلیٰ علامت ہے.
میری چڑیا شب کے اس پہر نہ جانے کیوں پھڑپھڑا اٹھی ہے. میں لفظوں کے حصار سے نکل کر باہر جاتا ہوں, چڑیوں کو نہ دیکھا تو اداسی برآمدے کے سارے گھونسلوں کو گھیر لے گی. تمہیں کل بتاؤں گا کہ کہانیوں کا تعاقب خاک ہو جائے تو سمجھو ریاضت کی خاک میں کوئی چنگاری جل اٹھتی ہے. باہر گارڈر پہ پھڑکتی چڑیاں جانتی ہیں کہ کہانیوں کی پلکوں پہ بسی بستیوں میں آگ لگ جائے تو سیاہی سڑک پہ پھیل جاتی ہے اور تم جانتی ہو میں اپنی آنکھوں میں خود کاجل کبھی نہیں لگاتا.
“1 دسمبر 2015”