ڈائری کا ایک ورق

ڈائری کا ایک ورق تحریر عثمان شرافت


برداشت کیا زہر میرے جسم نے اتنا
سقراط بھی ہوتا تو پناہ مانگتا مجھ سے
سردی کا زہر پورے شریر میں دوڑنے لگا تو روح احساس ندامت سے کانپی ۔ایک لمحہ کو تو جسم نے حرارت مہیا کرنے کے لیے کپکی کی کیفیت طاری کی۔مگر اس قدر غریب کے خون میں حرارے کہاں سے آئیں کہ وہ سردی کے عفریت ناک جن کا مقابلہ کر پائیں۔موسم سرما کی اس اذیت ناک سردی میں افلاس کی اذیت جسم کی لکڑی کو مزید منجمد کر دیتی ہیں۔اب ان حالات میں جکڑا ہوا انسان کیسے ترقی کی راہوں پر گامزن ہو۔جب آپ کو ملازمت کے حصول کے لیے ایک ان پڑھ سیاسی رسہ گیر کے پاس جانا پڑے جب ایک اعلی تعلیم یافتہ کو ان پڑھ سے نوکری کی بھیگ مانگنی پڑے تو کیسے ایک تعلیم یافتہ شخص اپنی قوم کو ترقی کے خواب دے گا۔آج بھی ان کیفیات کے متعلق جب وہم و گمان میں بات آتی ہے تو ایک سیل اشک رواں جسم میں طوفان اٹھانے لگتا ہے۔آخر ان غلام گردشوں سے ہم کیوں باہر نکلیں ۔ہمیں راس ہیں یہ چیزیں ،ہمیں مرنا نہیں صرف جینا ہے اور جینا بھی ایسا جس میں گھٹن کے باعث انسان موت کی بھیک مانگے۔۔میرے احباب جو سمجھتے ہیں کہ یہ پریشانی صرف چند لوگوں کی ہے۔یا یہ اذیت فرد واحد کے حصے میں آئی ہے وہ اچھی طرح جان لیں کہ کل کو اس اذیت کا شکار آپکی نسلیں بھی ہو سکتی ہیں۔کل اس کا شکار آپکا لخت جگر بھی ہو سکتا ہےسوچتا ہوں 3 دسمبر 2011 کا دن کتنا خوشگوار دن تھا جب اپنے حلقہ احباب میں بیٹھ کر گپیں ہانک رہا تھا اور مسکرا رہا تھا کہ یو ای ٹی میں انجیئنرنگ کا داخلہ خوش نصیب لوگوں کو ملتا ہے مگر آج چار سال گزرنے کے بعد احساس ہوا ہے کہ کس طرح قلم کی نوک کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے لوگ سفارش رشوت اور اقربا پروی کے بل بوتے پر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔۔قبیلے کی روایات سے بغاوت کر کے میں نے تعلیم حاصل کرنے کا جو جرم کیا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔میرے اس پاپ کی کوئی تلافی نہیں ہے۔مجھے آج احساس ہوا کہ تعلیم حاصل کر کے بہت سی ڈگریاں لے کر بھی انہی جاگیر داروں کے تلوے اگر چاٹنے تھے تو کاہے کو میں نے اپنا وقت برباد کیا ،کیوں خواہ مخواہ قبیلے والوں کی روایات کو توڑا کیوں سردار کے خاندان کو اپنا دشمن بنایا۔میں سوچتا ہوں کہ میرا باپ غلط تھا جس نے فیصلہ کیا تھا کہ میرا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے گا۔شاہی نظام کی فرسودہ روایات کو توڑے گا امن کے خواب کی تعبیر کرے گا۔کیونکہ میرا بڑا بھائی بھی انہی روایات سے بغاوت کے جرم میں حوالات کی سیر کر چکا ہے اور علاقہ بدر بھی ہے۔آج انہی حالات کا سامنا مجھے بھی کرنا ہے۔میرے پاس دو ہی آپشن یا تو شاہی سرداری نظام سے بغاوت یا سرداری نظام کی اطاعت۔ظاہری بات ہے بغاوت پر ضعیف طبیعت آماہ نہیں اور اطاعت پر ضمیر آمادہ نہیں۔اب شنوائی کہیں نہیں ہے۔کیونکہ سوچتا ہوں میں بھی اسی سلوک کا مستحق ہوں جو علاقے میں ہر ان پڑھ کے ساتھ ناروا رکھا جا رہا ہے۔اب میں کہاں جاؤں کہ اب تو سردار نے بھی جواب دے دیا او جی ڈی سی ایل میں ہیلپر کی سیٹ پر ایڈجسٹ کرنے کے لیے۔میرے پاس آپشن محدود ہوتے جا رہے ہیں ۔کیونکہ اب جہاں پر بھی اپلائی کرو چالان ہر صورت میں جمع کرو۔اب جس کا باپ دو وقت کا کھانا بچوں کو دینے سے قاصر ہو۔جس باپ کے پاس بچوں کا تن ڈھانکنے کے لیے پیسے نہ ہوں۔جس باپ کی زمین تعلیمی اخراجات میں بک چکی ہو۔وہ کہاں سے بیٹے کی اپلائی کے لیے پیسے لائے۔کہاں سے رقم دے کہ اسکا سپوت اسکے خوابوں کی تکملیل کی طرف گامزن ہو۔
میرے خواب جو میرے اندر گھل چکے ہیں سوچتا ہوں انہیں حالات کا زہر دے کر مار ڈالنے سے بہتر ہے کسی چوراہے پر پھانسی دلا دوں۔کیونکہ محدود آنکھوں سے لامحدود خواب دیکھنے پر کوئی تعزیر تو نہیں لیکن انکی تکمیل پر تعزیر ضرور ہے۔بے شک میں خواب دیکھتا مگر تکمیل کی طرف نہ جاتا اگر تکمیل کی طرف نہ جاتا تو آج ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔بہر حال چراغوں کی مانند ہم لوگوں نے جلنا ہے روشنی تو اونچے مکانوں میں پہنچانی ہے۔آخر یہ چراغ کبھی تو بغاوت پہ اتریں گے اور اونچے مکانوں کی روشنیوں کے حصار کو تاریکیوں میں تبدیل کر دیں گے

Like · Reply ·