آج نئی روایت کا گروپ سامنے آیا تو سوچا کیوں ناں میں بھی اپنی ڈائری کا ایک ورق آپ کی نذر کروں۔مورخہ 9 اپریل 2013 جب اپنا ایک دوست غمگسار خاک نشیں ہوا۔
طلحہ تمہاری عمر کی ابھی اٹھارویں بہار بھی مکمل نہیں ہوئی تھی تو نے بھی بہاروں کو الوداع کہ دیا۔تو نے بھی میرے شب وروز کے گملے میں اداسی کا بیج بو دیا۔ابھی تو سپنے دیکھنے تھے ابھی تو سپنوں کی تکمیل کرنی تھی مگر یہ اچانک کیا ہوا تو باد صبا کے ساتھ چل دیا۔میں اب سوچتا ہوں کہ تیرے بغیر گلابوں کی مہک گلابوں کی تازگی گلابوں کی جھلک مرجھا سی گئی ہے۔زخم جفا پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔میں اپنے حصے کے خاروں کو سمیٹ رہا ہوں مگر تیرے حصے کے خار اٹھانے والا کوئی نہیں آیا۔رنج کی جو فصل تم بو گئے ہو میں اس کو کاٹ کر اپنے حصے کا سٹاک گھر میں لگا رہا ہوں۔اب تیرے بعد دل کا عالم عجیب ہو گیا ہے۔اسکو کسی پل چین نہیں آتا۔یہ ہر لمحے ایک درد کو اٹھاتا ہے تڑپاتا ہے اور کہتا ہے اٹھو شہر جاناں سے کوچ کریں۔یہاں اب اپنا بسیرا ممکن نہیں ہے۔پھر میں اسے سمجھاتا ہوں۔شہر جاناں سے کہاں کوچ کریں کہاں جائیں گے۔کیوں کوچ کریں ۔کوئی راہی ہو کہیں منزل کی گواہی ہو کسی سے آشنائی ہو تب اس شہرِ غم سے کوچ کریں بصورت دیگر ارماں خاک ریزہ ہو کر مٹی میں مل جائیں گے۔یہ شامِ غم بھی کس قدر سہانی ہے ۔لہذا میں اتناکر سکتا ہوں تیرے غم میں چراغوں کو بجھا سکتا ہوں،ہاں مگر یاد آیا چراغ کہاں سے لاؤں اب آنکھوں کے چراغ ٹمٹما رہے ہیں۔سو جب یہ چراغ بجھیں گے شامِ غم ختم ہو گی اور ہم دونوں انشاءاللہ باغ جنت میں شادماں ہوں گے