ڈائری کا ایک ورق

ڈائری کا ایک ورق ،خالی صفحہ تحریر طلعت زہرا

میری ڈائری کا سب سے نمایاں صفحہ وہ ہے جو خالی پڑا ہے ۔ لہذا آیئے اس سے اگلے دن کا صفحہ پڑھتے ہیں ۔
13 جنوری 2011
آج سارا دن بھی جہاز کے سفر میں گزر گیا ، ابھی بھی سفر باقی ہے اور پاکستان پہنچنے میں بس تین گھنٹے باقی ہیں ۔ عام حالات ہوتے تو میں ڈائریکٹ فلائٹ سے آتی جو صرف ۱۴ گھنٹے میں پہنچا دیتی ہے لیکن ہفتہ مین ایک بار ہی کینیڈا سے لاہور پاکستان جاتی ہے ۔ مجھے ایمرجنسی میں یہ فلائٹ لینی پڑی جس میں آٹھ گھنٹے دوبئی میں قیام شامل ہے ۔
کل روانگی سے قبل بیٹی نے ایک اٹیچی مین میری ضرورت کی چیزین رکھیں اور ائر پورٹ پر چھوڑنے آئی ۔ وہ مجھے کچھ کہہ رہی تھی میں اسے دیکھ رہی تھی لیکن کچھ سمجھ نہین آ رھا تھا کیا ہو رھا ہے۔ پھر جہاز میں لوگوں کی گہما گہمی ، وہ بھی مجھے نظر آ رہی تھی لیکن ایسے لگ رھا تھا کہ مین کسی اور دنیا سے انہیں دیکھ رہی ہوں ۔ اب یہاں دوسری فلائٹ کا انتظار اتنا طویل محسوس ہو رھا ہے کہ میں تمام ائر پورٹ پر یونہی چکر لگا رہی ہوں ۔ کچھ لوگ کرسیوں پر سو رہے ہیں ، لیکن میرا نیند سے اعتبار اٹھ گیا ہے ۔ کچھ بچوں کو سنبھال رہے ہیں ، میرے دماغ کا اندرونی حصہ بچوں اور والدین کے اس تعلق کی توجیہہ مانگ رھا ہے ۔ بظاہر دماغ سن ہے ۔
میں خود سے مخاطب رہی کہ کچھ تو یاد کرو پرانی باتین ، کوئی قصہ کوئی اچھی باتیں ۔۔۔ طلعت ، تمہاری زندگی تو اتنی اچھی گزری ہے کہ ہزار بار بھی جنم لو تو اسی زندگی کی دعا کرو گی۔۔ لیکن یہ کیا ۔۔۔۔آج بلکہ کل سے بالکل خالی ہوں ۔ کل والے خالی ڈائری کے صفحے کی طرح ۔
ابھی تو مجھے قرنوں کا سفر طے کرنا ہو گا ، کیا یونہی خالی خالی۔۔۔۔۔
میرے زندگی کے ہر ہر سانس کی وجہ صرف امی ہیں ۔۔۔۔اوہ !کیا اب سے مجھے ’امی تھیں‘ لکھنا پڑے گا ۔۔۔۔۔
اناللہ وانا الیہ راجعون