ڈائری کا ایک ورق

ڈائری کا ایک ورق تحریر عرفان ستار

7 ستمبر 1997
رات کے دو بج رہے ہیں۔ کتنی ہی دیر میں اپنی ڈائری کے خالی ورق کو گھور رہا ہوں، مگر کیا لکھوں؟ ایسا پُرماجرا دن جو تھا۔ تھکن تو ہے مگر نیند کا آنکھوں میں شائبہ تک نہیں۔ اور آج ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ آج کوئی عام دن تو تھا نہیں۔ صبح آٹھ بجے ہی یوسف تنویر کا فون آگیا۔ “کیوں میاں۔ آج جون صاحب کو لانا ہے نا مارفانی کے گھر؟” میں نے جواب دیا ” ارے بھائی شام کا پروگرام ہے۔ آپ فجر کی نماز پڑھتے ہی میرے سر کیوں ہوگئے ہیں؟ سہہ پہر تین بجے چلیں گے جون صاحب کو لینے۔”
یوسف تنویر نے تو فون رکھ دیا مگر کچھ ہی دیر میں مجھے یوں لگا کہ وقت گزارنا مشکل ہو رہا ہے۔ جون صاحب سے میں کبھی نہیں ملا تھا اور ان سے ملاقات کا بے صبری سے منتظر تھا۔ تنگ آکر میں نے گیارہ بجے خود یوسف تنویر کو فون کیا۔ “یار دفتر چلتے ہیں۔ گھر میں جی نہیں لگ رہا۔ وہیں سے پھر جون صاحب کی طرف چلے جائیں گے۔”
یوسف تنویر کا دفتر طارق روڈ کے لبرٹی چوک کے قریب واقع ہے مگر رہائش ان دنوں فیڈرل بی ایریا میں واٹر پمپ کے نزدیک ہے۔ وہاں سے انھیں لے کر طارق روڈ کا رخ کیا۔ لبرٹی چوک سے ذرا پہلے ایرانی ریسٹورنٹ سے چلو کباب خریدے اور یوسف تنویر کے دفتر میں ٹھیکی لی۔ عبدالرزاق معرفانی جن کے گھر آج کی نشست ہونا طے تھی، تھوڑی تھوڑی دیر بعد فون کررہے تھے۔ ”آتوجائیں گے نا جون صاحب؟“ ”پتہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے؟ کہیں دیر نہ کردو۔“ ان کی بے تابی حد سے سِوا تھی۔
سوا چار کے قریب ہم جون صاحب کے گھر کے لیے روانہ ہوئے۔ گارڈن ایسٹ کے پرانے سے علاقے میں بہت بڑے بڑے مکان ہیں، جن میں سے ایک میں جون صاحب ان دنوں رہائش پذیر تھے۔ بڑے سے گیٹ کی کنڈی کئی بار بجانے پر ایک بڑی بی باہر آئیں۔ ”جون سے ملنا ہے؟ دفتر میں بیٹھے ہیں۔ چلے جائیے۔“ جس طرف بڑی بی نے اشارہ کیا وہاں تو سوکھے پتوں کا ڈھییر، پتھر، گارا اور اک چوکھٹ تھی جس میں دروازہ ندارد۔ ہمیں تذبذب میں مبتلا دیکھ کر بڑی بی پھر بولیں: ”میاں کو ہے راستہ۔ جائیے۔“ مکان کی عقبی جانب ایک دروازہ تھا۔ دستک دی تو چند لمحوں بعد وہ شخصیت ہمارے سامنے تھے جس سے ملنے کی تمنا نجانے کب سے دلوں میں تھی۔ یوسف تنویر کو دیکھتے ہی کہا: ”ارے تنّو آیا ہے۔ آجا آجا۔“ انھیں گلے لگا کر ماتھے پر بوسہ دیا اور میری طرف دیکھ کر پوچھا: ” جناب آپ کی تعریف؟“ میں نے نام بتایا تو کہا: ”مطلب جانتے ہو عرفان کا؟ بڑی ذمہ داری ہے تم پر میاں۔“ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ دفتر تو کیا تھا، ایک راہ داری سی تھی۔ 6 فٹ چوڑی اور شاید 18 فٹ لمبی۔ وپر 40 واٹ کا ایک بلب اس راہ داری کو روشن کرنے کے لیے ناکافی تھا۔ اس راہ داری کے آخری حصے میں ایک میز رکھی تھی جس کے پرلی طرف ایک کرسی تھی اور اِس جانب تین کرسیاں جن میں سے ایک پر ایک صاحب براجمان کچھ کاغذات دیکھ رہے تھے اور ہماری آمد پر کچھ خاص خوش نظر نہیں آرہے تھے۔ جون صاحب نے دو خالی کرسیوں کی طرف اشارہ کرکے بیٹھنے کے لیے کہا۔ پھر ان خفا خفا حضرت کی طرف اشارہ کرکے بولے: ”یہ انیق احمد ہے۔ میرا بیٹا ہے۔ یہ ہمارے ساتھ جائے گا۔“ انیق احمد نے خاصی روکھے لہجے میں پوچھا: ”جانا کہاں ہے؟“ میں نے جواب دیا ”امیرخسرو روڈ۔“ کچھ نہ بولے۔ جون صاحب نے کہا ”میں کرتا تبدیل کرکے آتا ہوں۔“ ان کی واپسی تک ہم خاموش بیٹھے رہے۔ جون صاحب واپس آئے اور کہا: ”انیق تو اپنی گاڑی یہیں چھوڑ دے۔ ساتھ چل۔“ گاڑی میں بیٹھتے ہی جون صاحب کہنے لگے: ”میاں چھوٹا کیپسٹن چاہیئے۔ کہیں سے حاصل کرو۔ آج کل مشکل سے ملتا ہے۔“ مجھے اندازہ نہ تھا یہ ایک مشکل کام ثابت ہوگا۔ دو، تین دکانوں سے معلوم ہوا کہ چھوٹا کیپسٹن مارکیٹ سے غائب ہے۔ اتفاق سے نیوٹاؤن مسجد کے برابر میں ایک پان کی دکان کا مالک میرا واقف کار تھا اور دکان راستے میں پڑتی تھی۔ وہاں سے ”مخصوص خریداروں“ کے کوٹے سے کیپسٹن کے دو پیکٹ مل گئے۔ جون صاحب بچوں کی طرح خوش ہوگئے۔ اس کے بعد راستے بھر گاڑی میں ایک عجیب سی خاموشی رہی اور میں دل ہی دل میں دعا کرتا رہا کہ سب خیریت رہے۔ جون صاحب کا موڈ کسی بات پر خراب نہ ہوجائے۔ معرفانی صاحب کے گھر پہنچے تو وہ صحن میں ہی انتظار کررہے تھے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی دیوان خانے میں سجی مسند، اس کے آگے مائک، اور سامنے بیٹھے افراد پر نظر پڑی تو جون صاحب میری طرف دیکھ کر غصے میں بولے: ”تم نے تو نہیں بتایا تھا کہ مشاعرہ ہے؟“ تنویر صاحب نے فوراً بات سنبھالی ”ارے نہیں جناب مشاعرہ نہیں۔ آپ سے ملاقات کرنا تھی۔ آپ کا جی لگے تو کچھ سنا دیجیئے گا۔“ جون صاحب مسند پر بیٹھ گئے اور خاصی بیزاری سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ ہمارے دوست منیرچوہدری نے ایک ٹرے لاکر سامنے رکھی جس میں ایک بوتل، گلاس، برف، اور کچھ نمک پارے اور میوے تھے۔ جون صاحب کے چہرے کی بیزاری کچھ کم ہوتی نظر آئی۔ کہنے لگے ”میاں بس ایک چھوٹا پیگ بنا دو۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ”میاں تمہیں کچھ اشعار یاد ہیں ہمارے؟“ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو کہا: ”سناؤ۔“ مجھے جون صاحب کے سینکڑوں اشعار یاد ہیں۔ دس بارہ اشعار سن کر جون صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور کہنے لگے ”یار تنّو۔ یہ عرفان تو میرے اندر کا آدمی ثابت ہوا۔ بہترین محفل ہے یہ۔“ مجھے کچھ سکون آیا اور معرفانی صاحب نے بھی ایک لمبا سانس لیا۔ اتنے میں ایک صاحب بلند آواز میں السلام و علیکم کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ انھیں دیکھ کر جون صاحب اچھل کر کھڑے ہوگئے۔ ”ارے سیّد۔ تو کہاں سے آگیا؟ کس نے بلایا سّید کو؟ خیر جس نے بھی بلایا بہت اچھا کیا۔“ یہ معروف افسانہ نگار امراؤطارق تھے۔ کچھ دیر امراؤطارق سے باتیں کرنے کے بعد جون صاحب معرفانی صاحب کی طرف متوجہ ہوکربولے۔ ”جی حضرت۔ شروع کریں؟“ معرفانی صاحب نے فوراً کہا: ”بسم اللہ حضور۔“ جون صاحب نے چشمہ لگایا، ملگجا سا رجسٹر کھولا جو وہ ساتھ لائے تھے، اور جو بھی صفحہ سامنے آیا پڑھنا شروع کردیا:
لائیں دل پر خرابیاں جاناں
تیری آنکھیں گلابیاں جاناں
ان دنوں وجہ اضطراب کی ہیں
اپنی کم اضطرابیاں جاناں
بن گئیں ایک جاوداں رشتہ
اپنی ناکامیابیاں جاناں
دشمن ِ جاں ہے لفظ و معنیٰ کا
یہ گروہ ِ کتابیاں جاناں
بن گئیں ترک ِ شوق کا باعث
شوق کی بے حسابیاں جاناں
سوچ تو، کیا تجھے گوارا ہیں
یہ مری بدشرابیاں جاناں
جون صاحب کے پڑھنے کا انداز، اور خوش ذوق سامعین کی داد ۔ایسا ماحول بنا کہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ درمیان میں جون صاحب باتیں بھی کرتے جاتے تھے۔ کسی کسی شعر کو پڑھتے ہوئے ان کا گلا رندھ جاتا تھا، اور کئی بار آنسو بھی چھلک جاتے تھے۔ مگر یوں تھا جیسے انھوں نے تمام حاضرین کو ہپناٹائیز کررکھا ہے۔ سب دم بخود سنتے تھے اور شعر مکمل ہونے پر والہانہ داد دیتے تھے۔
تین گھنٹے تک جون ایلیا کی شاعری کی دنیا تھی اور ہم۔ جی چاہ رہا تھا کہ یہ سلسلہ کبھی ختم ہی نہ ہو۔ نو بجے کے قریب جون صاحب نے رجسٹر ایک طرف پھینکا اور کہا: ”بھئی اب ہم میں دم نہیں ہے۔ معرفانی کچھ کھلاؤ۔“ کھانا لگ گیا اور گیارہ بجے تک کھانے اور چائے کے دوران گفتگو چلتی رہی مگر میں ایک ایسے نشے میں تھا کہ کچھ نہیں معلوم کیا باتیں ہوتی رہیں۔ واپسی کے سفر کے دوران جون صاحب بہت خوش تھے اور بار بار اس محفل کے شرکا کے بارے میں سوال کررہے تھے اور اپنی خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ گاڑی سے اتر کر رخصت ہوتے ہوئے کہنے لگے۔ ”جانی آجایا کرنا مجھ سے ملنے۔ کبھی یونہی۔ میں بہت اکیلا ہوتا ہوں۔“ انیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے: ” بس یہ بچہ میرا ساتھ دیتا ہے۔ میرا ابوبکر ہے یہ۔“
اس وقت تقریباً تین گھنٹے بعد بھی ایسا لگ رہا ہے کہ جون ایلیا کی آواز کانوں میں گونج رہی ہے اور میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہے۔ بہت شاعری سنی۔ بہت شاعری پڑھی۔ مگر ایسا شاعر نہ دیکھا نہ ایسی شاعری سنی۔ آج کا دن کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔
پسِ نوشت:
1۔ انیق احمد سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ اب وہ میرے عزیزوں میں ہیں۔ جون صاحب کی جیسی خدمت انیق اور اس کے تمام اہل ِ خانہ نے کی ہے، بالخصوص نزہت بھابھی نے اس کی مثال نہیں مل سکتی۔
2۔ یوسف تنویر بہت اچھے گرافک ڈیزائینر ہیں اور کراچی میں رہتے ہیں۔
3۔ عبدالرزاق معرفانی موسیقی، شاعری، اور مصوری کے رسیا اور پارکھ تھے۔ چند برس قبل کراچی میں انتقال کرگئے۔
4۔ اس واقعے کے بعد کئی برسوں تک جون صاحب کے ساتھ روزانہ کی ملاقات رہی اور ان کے لامتناہی علم سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔