پیاری ہمراز. آج رات میں دارالیمن شرقی کی جانب محو سفر تھا جو کہ گھر سے دس منٹ کے فاصلے پر ہے. وہ رات چودھویں کی رات, جیسے دودھیا رنگ میں ڈوبی کائنات ہو. جونہی گھر سے نکلا تو لگا جیسے پوری گلی حدت عشق کی لپیٹ میں آ چکی ہو.
اس رات مجھے ایک ان چھوئی کائنات کا لمس ملا.اس کائنات کا جو اپنے عشق میں فنا بنجارے کے لئے نشان منزل چھوڑتی ہے. اس رات اپنی آبائی گلی میں کہ جس میں ان گنت مرتبہ میں ادھر اُدھر چلا ہوں.اور جسکا ایک ایک نشان و پتھر مجھے ازبر ہے وہاں قدم قدم پر نبض رکتی محسوس ہوئی. ایک گھر کی دیوار سے ایک پھول جھانک رہا تھا ایسے جیسے کسی ویران دل میں کوئی خیال جنم لیتا ہو جیسے تپتے صحرا میں پانی کا ایک قطرہ اچانک گرا ہو. اس رات مجھ پر جلوۂ یار برابر نشر ہو رہا تھا…
پورے چاند کی مقدس کنواری چاندنی پورے عالم پر طاری تھی. اور میرا عشق چلا چلا کر پکار رہا تھا کہ ” ھل من مزید ”
چند لمحات کے لئے چاند میرے قریب ہوا اور بولا ” تو کون ہے ”
میں نے کہا ” یہ میں ہوں ” میں نے پوچھا ” تو کون ہے ” تو چاند دھیمے لہجے میں ہنس کر کہنے لگا ” میں تم ہوں ”
یہ قلیل مدت کا لمحہ مجھے ایک اور کائنات میں دھکیل گیا اور چاند نظروں سے پوشیدہ ہوا اور آنکھ بھر آئی…….
اس نئی کائنات میں ہر قدم ورغلانے والا تھا اور مجھے بخوبی علم کہ کائنات عشق اپنے راز قائم رکھنا جانتی ہے مگر اس قلیل پل میں دفتر کائنات نے میری روح کو ڈی کوڈ کی طاقت عطا کی , میری نے سگنل کیچ کیا اور دل کی سکرین جھماکے سے روشن ہوئی… “فنا ”
زبان پر جاری تھا
” دیکھنے والا تھا منظر جب کہا درویش نے
کج قلاہو ! بادشاہو ! تاجدارو !……. تخلیہ ”
میں دارالیمن شرقی پہنچ گیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی…….