ڈائری کا ایک ورق

ڈائری کا ایک ورق تحریر ضیغم عابدی

ڈھلکتے آنچلوں سے بے خبر لڑکیاں تو اس روز موجود نہیں تھیں لیکن مجید امجد کی نظم ” آٹوگراف” میں پوشیدہ دکھ پورے ہال میں رقصاں تھا۔۔۔ یہ 2003 کا سن تھا۔ملتان آرتس کونسل میں محسن نقوی کی برسی پر ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا تھا۔سٹیج پر مہمانان خصوصی کیف انصاری، احمد فراز اور محسن نقوی کے بیٹے عقیل نقوی براجمان تھے۔شاعر اپنا کلام سنا رہے تھے کہ ہال میں ساتھ بیٹھے میرے دوست ڈاکٹر تنزیل کو کیا سوجھی کہ اٹھے اور سٹیج پر جا کر اپنے بٹوے کی ٹیلی فون ڈائیریکٹری کا صفحہ احمد فراز کے سامنے کیا اور آٹوگراف کی فرمائش کر ڈالی احمد فراز نے بھی فوراً آٹوگراف دے دیا پھر کیا تھا تنزیل کی دیکھا دیکھی اور بھی بہت سے لوگ سٹیج پر آ کر احمد فراز سے آٹوگراف لینے لگے۔فراز کے گرد ہجوم کے باعث کچھ لوگ عقیل نقوی کی طرف آٹوگراف کے لیئے لپکے لیکن میں حیران رہ گیا کہ کسی نے بھی کیف انصاری سے آٹوگراف کی فرمائیش نہیں کی اس وقت کیف انصاری کے چہرے سے تو کسی قسم کے تاثرات کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا لیکن جانے مجھے کیوں محسوس ہو رہا تھا کہ غیریت کا ایک سیل کیف انصاری کو بہائے لے جا رہا ہے اور ایک کونے میں مجید امجد بلند آواز سے مسلسل ” آٹوگراف ” پڑھے جا رہے ہیں۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ احمد فراز نے ہجوم سے تنگ آ کر آٹوگراف دینے سے انکار کر دیا اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ قدرت کی کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک ہی چھت تلے دو خوبصورت شاعر ہیں ایک شہرت کی دیوی کی عنایات سے گھبرا گیا ہے اور دوسرا اس کی راہ تک رہا ہے۔۔اگرچہ مشاعرے کے اختتام پر سب کے ذہن میں کیف انصاری کا ہی مصرع گونج رہا تھ کہ
اس کو تو بچھڑنے کا سلیقہ بھی نہ آیا