ڈائری کا ایک ورق

میری ڈائری کے چند ورق ،،یادیں ،،،تحریر نسیم سید

 

وہ غروب آفتا ب کی گھڑی تھی اور آ فتا ب کی کر نیں وقت کے بے کرا ں سمندر میں ٹو ٹ ٹو ٹ کے گر رہی تھیں۔۔ ڈوبتا ہو ا اجا لا۔۔ ر یزہ ریزہ ہو کے بکھر تی ہو ئی رو شنی زند گی حقی صا حب کے بستر سے ٹکی اپنی بے بسی میں منجمد ہو رہی تھی ۔ ، زیبا(حقی صا حب کی بیٹی )نے ابھی ابھی اپنے آ نسو پو چھتے ہو ئے خو د کو دلا سا دینے کو کہا تھا ۔
’’ابا کے گلے میں کچھ اٹک گیا ہے شا ید صبح کچھ کھلا نے کی کو شش کی تھی نا اسی لئے ا س طر ح سا نس لے رہے ہیں۔۔۔ابھی تھو ڑی دیر میں ٹھیک ہو جا ئیں گے ‘‘اور پھر بلک بلک کے رو نے لگی تھی‘‘ ۔زیبا میں ہمت نہیں ہوگی کمرے کے اندر آنے کی وہ دروا زے سے ٹیک لگا ئے آ نکھیں بند کئے دعا ئیں پڑ ہنے میں مصرو ف تھی۔ حقی صا حب کا نوا سا ان کے سر ہا نے بیٹھا تھا جب بھی حقی صاحب اپنی سانسیں بٹور نے کے لئے تڑپ کے بستر سے سر اٹھا نے کی کو شش کر تے وہ بھی کر سی سے کھڑا ہو جا تا ۔میں ، رشید اور ثمینہ دیر سے بستر کے قر یب کھڑ ے ا پنے اندر اٹھتی غم کی ایک ہو لنا ک مو ج میں ڈو ب اور ابھر رہے تھے ۔میں نے پیتا نے کی طر ف دھیر ے سے قدم بڑ ہا یا او ر میر ی عقید تو ں نے آ گے بڑ ھ کے حقی صا حب کے پیر تھا م لئے۔مجھے ایسا لگا جیسے بر ف کی دو چھو ٹی چھو ٹی سلوں کو میری ہتھیلی نے چھو لیا ہو ۔یہ پیرجو اپنے نا م کے چرا غ ادب کی تما م خیمہ
گا ہو ں میں روشن کر چکے ہیں سر د اور گر م مو سمو ں کو کیسا ا پنی ٹھو کرو ں میں رکھتے تھے۔میر ی آ نسئو ں سے دھند ھلا ئی ہو ئی آ نکھو ں میں بہت سے منظر روشن ہو گئے۔
حقی صا حب کی آو ا ز میر ے کا نو ں میں گو نجی ’’
’’ ارے نسیم بی بی ہر مو سم میں چلتے رہنے کا عا دی ہو نا چا ہئے پیر وں کو‘‘
وہ سر دیو ں کی ایک یخ بستہ شا م تھی، اتنی سر د ی کہ گھر سے نکل کے گا ڑی تک جا نے میں خو ن رگو ن میں جم جا ئے ، میں نے ہیٹر فل چلا یا ہو ا تھا رات بھر بر ف با ری ہو ئی تھی اس لئے میری گا ڑی کی رفتا ر بہت آ ہستہ تھی ۔اپنی بلڈنگ سے نکل کے جیسے ہی سیدھے ہا تھ کو مڑ کے زرا سا آ گے بڑ ہو تو سگنل آ جا تا ہے ۔ میں نے گا ڑی سگنل پر ر و کی تو گا ڑی کے سا منے سے لمبے سے کا لے کو ٹ میں خو د کو لپیٹے سر کو ٹو پی اور مفلر میں چھپا ئے میر ے سا منے جو شخص گزرا اسے دیکھ کے میں پر یشا ن ہو گئی ۔ میں اس کو ٹ کو بھی پہچا نتی تھی اور اس قد و قا مت کو بھی ۔ حقی صا حب!!! میر ے منہ سے جیسے بے ا ختیا ر ایک چیخ سی نکلی
ا تنی سخت سر دی میں ؟ پید ل ۔۔۔میں نے گھبرا کے زور سے ہا رن دیا حقی صا حب نے پلٹ کے د یکھا ۔۔۔میں نے ونڈو کھو ل کے آ وا ز دی ـ ـ ـ۔۔’’ سر جلدی سے گا ڑی میں آ جا ئیں‘‘ میں نے گا ڑی سے اتر کے انکا ہا تھ پکڑا اور کا ر میںلے آئی ، سگنل گرین ہو چکا تھا پیچھے والے ہا ر ن بجا کے مجھ پر نا را ض ہو رہے تھے میں نے جلدی سے گاڑی آ گے بڑہا تے ہو ئے ہیٹر کی جا لی کا رخ انکی طر ف موڑا ’’سر ! اتنی سر دی میں آپ پیدل کہا ں جا رہے تھے ‘‘
’’بس زرا وال مارٹ تک جا رہا تھا پرنٹنگ پیپر ختم ہو گیا تھا اور بہت ضرو ری تھا لینا ‘‘
’’سر تو مجھے فو ن کر یتے نا ‘‘
’’ تم خو د اسقدر مصر و ف رہتی ہو اور پھر یہ بھی ہے کہ اس بہا نے زر ا واک ہو جا تی ہے‘‘
’’واک؟ سر ا تنی سر دی میں اس مو سم میں واک ؟‘‘
’’ ارے نسیم بی بی ہر مو سم میں چلتے رہنے کا عا دی ہو نا چا ہئے پیروں کو‘‘
ـ’’ حقی ایک فو لا دی حو صلے اور قوت کا نا م ہے ‘‘ میں نے سو چا ا ور میر ی محبت و عقید ت مجھ سے ہٹ کے انکے قد موں میں بیٹھ گئی۔
در وا زے پرابھی ابھی د ستک ہو ئی ہے۔۔یہ وہی مخصو ص دستک ہے جس کا مجھے اکثر شا م کو ا نتظار رہتا ہے۔۔ اس د ستک میں وہ گن تھے کہ یہ میرے ذہن کی زنگ آلو د کنڈ یا ںا یک ایک کر کے کھو لتی چلی جا تی تھی، میں اس آوا ز پر دروا زہ کھو لنے کی جلدی میں یو ں دو ڑ تی ہمشہ جیسے اگر زرا دیر ہو ئی تو زند گی کا کو ئی قیمتی لمحہ میر ے ہا تھ سے نکل جا ئے گا ۔
حقی صا حب اور میں ایک ہی بلڈنگ ـ ’’ کینف کر یسنٹ‘‘ میں رہتے تھے تب۔ انکا اپا ٹمنٹپ ا نچویں فلو ر پر تھا اور میرا پندر ہویں پر ۔ وہ کبھی آ نے سے پہلے فو ن نہیں کر تے تھے جب دل چا ہتا آ جا تے ۔کہتے تھے تین با ر تمہا رے در و ازے پر دستک دیتا ہو اگر گھر میں ہو تو ٹھیک نہیں تو وا پس لو ٹ جا تا ہو ں۔ مجھے معلو م تھا کہ اور کو ئی آ ئے گا تو بیل بجا ئے گا اور اگر دستک ہو گی تو حقی صا حب ہو نگے اس لیئے اس وقت بھی دل کی خو شی نے دو ڑ کے در وا زہ کھو لا ۔ دو نو ں ہا تھ پشت پر با ند ھے سا منے حقی صا حب مو جو د تھے۔ چہرے پر جو ہمیشہ خفیف سی مسکرا ہٹ ہو تی تھی وہ نہیں تھی بلکہ اس کی جگہ کچھ جھنجھلا ہٹ سی تھی
انکے چہر ے پر یہ تا ثرجب ہو تا تھا جب وہ کسی مو ضو ع پر الجھے ہو ئے ہو ں۔میر ے سلام کا جو اب سر کے اشا رے سے دیا اور کو ری ڈور سے گزر کے صو فے پر اپنی مخصو ص جگہ پر بیٹھ گئے۔ایسے مو قع پر میر ی ہمت نہیں ہو تی تھی کہ با ت شرو ع کیسے کروں۔
’ چا ئے بنا ؤں سر‘‘
ـ’’ پکا یا کیا ہے‘‘ بہت کم ایسا ہو تا تھا کہ وہ کھا نا کھا ئیں ۔ کبھی تو چا ئے بھی نہیں پیتے تھے
بس کچھ دیر بیٹھ کے اٹھ جا تے ۔ آ ج خود کھا نے کا پو چھا تو دل شا د ہو گیا
ـ’’شا می کبا ب ہے سر اور دال ہے ‘‘
تم نے کھا یا ؟
’’جی نہیں سر ‘‘ میں نے جھو ٹ بو لا
’’ ٹھیک ہے تو کھا نا نکا ل لو‘‘
ہم کھا نا کھا نے بیٹھے تب تک وہ اپنی مخصو ص مسکرا ہٹ میں وا پس آ چکے تھے ۔
’’سر ! آ ج آ پ کچھ الجھے ہو ئے سے تھے ، طبعیت تو ٹھیک ہے‘‘
’’ہا ں طبعیت ٹھیک ہے بس ٹی وی کے سامنے سے جھنجھلا کے اٹھا تو تمہاری طرف آ گیا ۔
’’ ٹی وی۔۔۔ کیاکو ئی بری خبر تھی؟‘‘
’’نہیں بی بی وہ نیو ز کا سٹر۔۔ ارے پا کستا نی چینل کی نیو ز کا سٹر۔ لا حو ل وللہ قوت ۔۔اس نے وقت بتا یا ۔۔۔چار بج کے تھرٹی منٹ ہو ئے ہیں۔ یہ ہما را نیشنل ٹی وی ہے ۔ بھئی یا تو آ پ فور تھرٹی کہہ دیجیئے یا چا ر بج کر تیس منٹ کہئے ۔ یہ چا ر بج کر تھر ٹی منٹ کیا چیز ہے۔۔ یہی عا لم ہما را زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔۔با لکل یہی عالم ہے ۔۔۔۔وہ اپنی جگہ پر کسی ا ندر و نی بے قرا ری کے سبب اٹھ کے کھڑے ہو گئے ۔۔پھراپنے مخصو ص اندا ز میں پشت پر ہا تھ باند ھ کے ٹہلنے لگے۔۔زیر لب وہ شاید خود سے مخا طب تھے ۔ـ’’شعبے میں آ دھے تیتر آ دھے بٹیر۔۔ہر شعبے میں چا ر بجکر تھر ٹی منٹ ہو ئے ہیں‘‘
’’ زندگی کے ہر شعبے میں آ د ھے تیتر آ دھے بٹیر ‘‘

خیر چلو چھو ڑو۔۔ وہ دو با رہ بیٹھ گئے ۔۔بھئی کبا ب بہت اچھے ہیں انہو ں نے شا ید اپنی ذہنیکو فت مٹا نے کے لئے مو ضو ع کو بد لا مگر میں نے سو چا حقی صا حب کب کسی مو ضو ع پر کھل کے با ت کر تے ہیں اس لئے اس مو ضو ع پر ایک آ دھ سوا ل کر لیا جا ئے۔در ا صل میں ہمیشہ ان سے کچھ پو چھ لینے ، جا ن لینے یا سیکھ لینے کے چکر میں رہتی تھی ۔ بہت کم ایسا ہو تا تھا کہ وہ لمبی گفتگو کریں۔
’ ’ ابھی بہت کا م ادھو را پڑا ہے‘‘
وہ اکثر کہتے تھے اور یہ ا حسا س شا یدانہیں ہر وقت خو د میں جکڑ ے رہتا تھا ۔
بہت خو ش ہو تے تب بھی چند جملے بو لتے۔بہت پر یشا ں ہو ں تب بھی ایک آدھ جملہ ہی بو لتے اور کسی سے کو ئی دکھ پہنچ جا ئے تو با لکل ہی چپ سا دھ لیتے تھے ۔
ا سکا تجر بہ مجھے مختلف اوقا ت میں ہو چکا تھا ، بو لتے تھے بس کسی ایسےاندرو نی اضطرا ب کے وقت جس پر جھنجھلا کے میر ے پا س چلے آ ئے تھے ۔اس وقت ان سے با ت کی جا سکتی تھی سو میں نے پو چھا
سر ! ہما ری خو د سے اس درجہ بے دلی اور بے اعتنا ئی کی وجہ کیا ہے آ پ کے خیال میں؟
وہ تھو ڑی دیر چپ رہے پھر ۔۔ہا تھ کا نوا لہ واپس پلیٹ میں رکھا ۔۔ایک گہر ی سانسلی
’’کیا کہا جا ئے ‘‘
انکی آ واز پہ ہما ری بر با دی کی تا ریخ کے بو سیدہ اورا ق کی پیلا ہٹ جم گئی تھی
’’ بی بی کسی قو م کا یہ حال ایک دن میں نہیں ہو تا ۔دھو پ اور تا زہ ہوا کو روکنے کی خا طر جو دروا زے بند کر کے چھو ڑ دئے جا ئیں ان میں چپکے سے دیمک سرا ئیت کر جا تی ہے ۔اور پھر آ ہستہ آ ہستہ یہ دیمک پو ری عما رت کو کھو کھلا کر دیتی ہے۔ یہ دیمک کب سے لگنا شرو ع ہو ئی اور کس طر ح پو ری عما رت کو کھو کھلا کر گئی۔۔ یہ سمجھو کہ اس مو ضو ع پر ایک کتا ب میر ے اندر تحر یر ہے جو کا غذ پر اتا ر نا چا ہتا تو ہو ں مگر ابھی اس قدر کا م ادھو رے پڑے ہیں اور وقت بھی بس اب کم ہی بچا ہے ۔ اب تم دیکھو نا وہ جو ہما ری نظر میں ما ری ہر برا ئی کا سبب ہیں ۔گم کر دہ راہ ہیں وہ تسخیر کا ئنا ت کی منز لیں طے کر تے کر تے چا ند تک پہنچ گئے اور ہم ابھی اس قسم کے مسا ئل میں الجھے ہو ئے ہیں گو یا کہ سو ئی کی نو ک پر کتنے فر شتے بیٹھ سکتے ہیں۔یہ ایک لمبی دا ستا ن ہے۔۔شا ید ا ن کی سو چیں اس داستا ن کے اورا ق الٹنے میں محو ہو گئیں اور وہ بے دھیا نی میں اپنی جگہ سے پھر ا ٹھ کے کھڑ ے ہو گئے ۔
ا چھا نسیم بی بی میں چلتا ہو ں۔۔۔ا نہو ں نے در وا زے کی طر ف قد م بڑ ہا ئے اور میں بو کھلا کے کھڑی ہو گئی ۔
سر ۔۔۔کھا نا
اچھا ۔۔ہا ں ۔۔لو میں تو بھو ل ہی گیا ۔
وہ اپنی دھن میں اکثر چھو ٹی چھو ٹی با تیں بھو ل جا یا کر تے تھے مگر یا د دا شت کا وہ عا لم تھا کہ جو وا قعہ بیا ن کر تے تا ریخ او ر سن کا حوا لہ سا تھ سا تھ دیتے جا تے۔فلسفہ ، تا ریخ، مذہب، سیا ست ، ادب کسی مو ضو ع پر جب با ت کر نے پر آ تے تو حیر ا ن کر دیتے اپنی علمیت سے ۔ یو نا نی فلسفہ و فکر کی با ت ہو یا مسلما نو ں کے جبر وا ختیا ر کے مسا ئل، عباسیو ں کا عہد حکو مت یا افلا طون کے مکالمات ۔ ان کی گفتگو کا فیض اس با رش کی طر ح تھا جو بر س جا ئے تو سو کھے کھیتوں کو ہرا بھرا اور شا دا ب کر دے ۔وہ مر عو ب کر نے کے لئےکبھی اپنے حوا لے سے کو ئی با ت نہیں کر تے ، میں اگر ہمت کر کے کو ئی ذا تی سوال پو چھ بھی لیتی تو بڑ ی خو بصو ر تی سے یا تو ٹا ل جا تے یا بیحد مختصر جوا ب دیتے۔
سر ! آ پ مطمعن ہیں کہ آ پ نے ادب کو جتنا کچھ دیا ادبی دنیا نے اس کی قدر و اہمیت کے مطا بق آ پ کو سرا ہا اور پہچا نا؟
’’عشق میں لین دین کہا ں ہو تا ہے نسیم بی بی ۔۔ اپنے اندر کی کو ئی بھو ک مٹا تے ہیں ہم ادیب اور شا عر کسی پر احسا ن تھو ڑی کرتے ہیں۔اور پھر میںنے تو ادب کو کچھ دیا ہی نہیںبس اپنا ہی بھلا کیا ‘‘
میں ان کی مو جو د گی کی بر کت کو خو د میں جزب کر نے کو بے چین رہتی تھی میر ے ذ ہن میں چھو ٹے چھو ٹے سوالا ت ہر وقت کلبلا تے رہتے ۔ حقی صاحب کی
مو جو د گی کا جشن میں نے اپنی تو فیق بھر منا یا تھا۔ حقی صا حب مجھے طر ح طر ح سے منع کر تے رہے اس جشن کے لئے جب یقین ہو گیا کہ میں اپنی سی کروں گی تو کہنے لگے
’’ بی بی اگر میں یہ کہو ں کہ مجھے تمہا ری اس محبت سے خو شی نہیں ہو گی ۔تو جھو ٹ بو لو ں گا تم نے وہ اپنی نظم میں کہا ہے نا۔۔۔۔وہ جو نر سنگ ہوم نظم ہے۔۔کیا ہے وہ شعر ۔۔ہر عمر میں جسم نمو پا تا ہے محبت سے۔۔کیا ہے پڑ ہو
جی وہ ہے ۔۔۔۔
’’جسم ہر عمر میں چا ہت سے نمو پا تا ہے ۔ ہو نہ رشتو ں کی حرا رت تو یہ مر جا تا ہے‘‘
’’ہا ن یہ بہت سچی با ت ہے ۔۔۔بہت سچی ہے‘‘
تو ایسا نہیں کہ میں خو ش نہیں ہونگا مگر با ت یہ ہے کہ اس پر یہ شر مندگی غا لب آ رہی ہے کہ میں نے ایسا کو ئی کا م کیا ہی نہیں کہ تم میر ا جشن منا ئو اوریہ با ت میں با لکل سچے دل سےکہہ رہا ہو ں تم یہ مت سمجھنا کہ انکسا ری سے رتی بھر بھی کا م لیا ہے میں نے‘‘
میں نے کہا ’’سر یہ فیصلہ آ پ دو سرو ں پر اور وقت پر چھو ڑ دیں نا‘‘
ٹھیک ہے جیسی تمہا ری مر ضی ۔۔پھر زرا جھجھک تے ہو ئے بو لے وہ ایک غزل ہے ۔۔
تم سے الفت کے تقا ضے نہ نبھا ئے جا تے۔۔وہ شا مل کر لو اگر دل چا ہے تو‘‘ درا صل ٹورنٹو کے معر و ف فنکا ر منی اور ا فضل سے انکی کچھ غز لیں گا نے کا بھی اس میں پرو گرا م کے ا ختتا م میں اہتما م تھا ۔۔ا فضل اور منی نے انکی غز لو ں کی اسقدر خو بصو رت دھن بنا ئی تھی کہ پرو گرام کے دورا ں جس قدر حقی صا حب لا تعلق سے رہے اس دورا نیہ میں جب انکی غز لیں گا ئی گئیں تو ایک عجب سی خوشی ا ن کے چہرے کو اور بھی پرنور بنا رہی تھی خاص کر ان کی اپنی پسندیدہ غزل جب گائی افضل صاحب نے تو ان کی مسکرا ہٹ کے گر د بھی نو ر کا ایک ہا لہ سا بن گیا۔
پرو گرا م کے دو دن بعد میں ان کی طر ف گئی ۔ جب کو ئی انسے ملنے آ جا تا تو انکا بس نہیں چلتا تھا کہ کس طر ح خا طر مدارا ت کریں ۔ میں جب بھی جا تی وہ خو د جلدی سے چا ئے کا پا نی رکھ دیتے ۔ کھا نے کی میز پر ہمشہ طر ح طر ح کے بسکٹ کے ڈ بے دھر ے ہو تے تھے وہ جلدی جلدی تشتر ی میں نکا لنے لگتے۔ اس دن میں انکی طر ف گئی تو بہت تھکے ہو ئے سے تھے ۔۔
سر طبعیت تو ٹھیک ہے ناآ پ کی؟
بس وہ ذرا دو را ت سے سو یا نہیں ہوں۔۔۔ تین چا ر بجے تک سو جا تا ہو ں اور چار ، پا نچ گھنٹے سو لیتا ہو ں۔۔۔۔ مگرخیر۔۔ ہو جا تا ہے کبھی کبھی ایسا کو ئی بڑ ی با ت نہیں۔
ستاسی سا ل کی عمر ۔۔تین بجے رات تک ہر روز مسلسل کام ۔کسی کی دل آ زا ری نہ ہو اس خیال سے ہر کے پرو گرا م میں شر کت۔ کسقدر حیران کن قوت ارا دی کی مالک تھی یہ شخصیت ۔
سر آ پ نیند کے کو ئی دوا نہیں کھا تے ؟
نہیں بھئی کب تک نیند نہیں آ ئے گی ۔۔کبھی توآ ئے گی نا
تھو ڑی دیر ادھر ادھر کی با ت ہو تی رہی پھر زرا مسکرا کے بو لے ۔۔’’بڑ ی عجیب با ت ہے۔۔۔آ ج تمہا رے پا س کو ئی سوا ل نہیں‘‘
’’ہے سر ۔۔۔مگر آ پ تھکے ہو ئے ہیں ‘‘
’’تمہا رے سوال مجھے میرے کا م کے علا وہ بھی کچھ سو چنے پر مجبو ر کر دیتے ہیں اس لئے چلو پو چھو‘‘
’’ا چھا تو سر یہ بتا ئے کہ اکثر بڑے شا عر و ں اور ا دیبو ں کے خا ندا ن کونظر اندا ز کئے
جا نے کی شکا یت ہو تی ہے ۔ا یسا کیو ں ہے؟ ‘‘
اکثر میر ے سوال پر وہ یا تو سوال دھرا کے مجھے ہی امتحا ن میں ڈا ل دیتے تھے ’’ تم بتا ؤایسا کیوں ہے‘‘ یا اگربالکل ہی ٹا لناہو تو یہ کہہ کے با ت ختم کر دیتے کہ ’’پتہ نہیں ، کچھ ٹھیک سے کہہ نہیں سکتا ۔مجھے خطرہ تھاکہ وہ مجھ سے ہی سوال کر دین گے ـ ’’تم بتا ؤ ایسا کیوں ہے‘‘
مگر وہ زرا سا کھنکارے اور وہ ایک خا ص چمک سی دو ڑگئی انکے چہرے پر جو کسی سوال کا جوا ب دینے کا مو ڈ ہو تا تو دوڑ جا یا کر تی تھی۔
’’ہا ں ۔۔ہو تا ہے، اکثر ایسا ہو تا ہے۔دراصل آ پ جس شعبہِ میں بھی مہا رت حا صل
کرناچا ہیں اس میں تن، من ، دھن سے لگناپڑ تا ہے۔ اور بہت سی قر بانیاں دینی پڑ تی ہیں ہم اپنے ارد گرد مو جو د محبتو ں کو نہ یہ با ت سمجھا پا تے ہیں نہ ہی وہ سمجھا نے سے سمجھ پا تی ہیں۔ادب ہی کیا کسی بھی شعبہ میں اگر صد ق دل سے ریا ضت نہ کریں تو پھر با ت نہیں بنتی۔ہے نا ایسا؟ ‘‘
ـ’’جی ہا ں ۔۔۔یہ تو ہے‘‘ ’’ کچھ پا نے کے لئے اپنے آ پ کو کھو نا پڑتا ہے۔۔بہت سے چین اور آرا م کو کھو نا پڑتا ہے
بہت سے دکھ بر دا شت کر نے پڑ تے ہیں ۔ ۔اپنے آ پ سے کیا ہو ا وعدہ نبھا نا ایسا آسا ن نہیں۔۔۔طرح طر ح کی پیا س جھیلنی پڑ تی ہے مگر کیوںکہ اس با ت کو سمجھا یا نہیں جا سکتا
اس لئے اکثر وہ اپنی جگہ ایک درست شکا یت جو ادیبوں ، شا عروں یا فنکا روں سے ان کے خا ندا ں کو ہو تی ہے اس کا ملال بھی کا م میں شا مل ہو جا تا ہے انکے۔۔
حقی صا حب کبھی کبھی اچا نک ایسا سوا ل کر دیتے تھے جیسے امتحا ن لینا چا ہ رہے ہو
ان دنو ں میں بڑے دکھ سے گزر رہی تھی ،میرے چھو ٹے بہنو ئی کو جو کہ اسلا میہ کا لج کا پرسنپل تھا اس لیئے گو لیو ں سے بھون دیا گیا تھاکہ اس کا لج کاکبھی کو ئی شیعہ پر نسپل مقر ر نہیں کیا گیا تھا ۔ حقی صا حب ان دنو ں ا کثر شا م کو میر ے پا س آ جا تے اور مختلف طر یقو ں سے مو ت اور زند گی کے فلسفہ پر گفتگو کیا کر تے ۔ انہو ں نے کبھی اس سانحہ پر کو ئی با ت نہیں کی جو مجھ پر گزرا تھا کبھی تعز یتی الفا ظ نہیں کہے۔ ایک دن اچا نک پو چھا
’’ بھگوت گیتا پڑ ہی ہے ؟ ‘‘
’’ جی سر ! پڑ ہی ہے‘‘
’’ کیا پڑ ھا بتا ئو ؟ ‘‘
سر مہا بھا رت کی جنگ جو ملک و ما ل کے لئے لڑی گئی اس کے اندر ایک اور جنگ جو لڑی گئی ۔ با طنی اور روحا نی جنگ کرشن اور ارجن کے در میا ں اس کے کیاکہنے ‘‘
ہا ں ۔۔ا س کتا ب میں بڑی بڑی با تیں لکھی ہیں ’’جسم ایک ڈبیا ہے روح اس کے اندر ایک ہیرا۔ ڈبیا ٹو ٹ جا ئے تو ہیرے پر کوئی فر ق نہیںپڑ تا ۔۔اورفیضی کا شعر ہے
تغیر بہ جسم است و جا ن فا رغ است
حوا دث بر یں است و آ ن فا رغ است
واہ کیا با ت ہے! میں نے فو ں کے پا س رکھا ہوا پیڈ اور قلم اٹھا یا
سر ایک با ر اور پڑھ دیجئے یہ شعر ۔۔۔میں اکثر ان کے چھو ٹے چھو ٹے جملے ۔ کو ئی با ت کو ئی انکا پڑہا ہو ا شعر لکھ لیا کر تی تھی
’’یہ سب اس لئے بتا رہا ہو ں کہ میرا بھی اب بس سمجھو سا ما ن بند ھا ہے ۔۔تو بھئی کیو نکہ تم با ت با ت پررونے کو تیا ر رہتی ہو اس لئے تا کید کر رہا ہو ں کہ میر ی رخصتی کے وقت رو نا مت‘‘ ’ ’ رو نا مت ‘ ‘ انکی آوا ز نے سر گو شی کی ۔۔۔میںنے جلدی سے اپنی آ نکھیں پو چھیں۔ میر ے ہا تھ برف کی دو چھو ٹی چھو ٹی سلو ں پر دھرے تھے اورر وہ ٹھنڈ ک میں اپنی ریڑھ کی ہڈی میں اتر تی محسو س کر رہی تھی مگر کیسے کیسے زندہ منا ظر نظرو ں کے سا منے سے تیز ی سے گزر رہے تھے ۔ذہن سیکنڈ وں میں کہا ں کہا ں لے جا تا ہے اور کیسے کیسے منا ظر سے پل بھر میں گزا ر دیتا ہے ۔۔۔ یہ چل رہے ہیں ۔۔وہ پھر رہے ہیں ، یہ آ رہے ہیں ۔۔وہ جا رہے ہیں ۔۔۔وہ جا رہے ہیں۔۔۔دل کی بے تر تیب دھڑ کنیں پھو ٹ پھو ٹ کے رو رہی تھیں میں نے دھند لا ئی ہو ئی نظر و ں سے حقی صا حب کے چہر ے کی طر ف د یکھا ۔بے تر تیب سانسوں نے انہیں زرا سی چین کی مہلت دی تھی شا ید ۔
حقی صا حب نے سر اٹھا نے کی کو شش کی ۔۔زرا سا سر اٹھا مگر نہیں اٹھا سکے۔۔دا ہنے ہا تھ کو اٹھا کے انگلی سے ٹی وی کی طر ف اشا رہ کیا ۔انکا نوا سہ گھبرا کے کھڑا ہوگیا اور دلگیر آواز میں جلدی جلدی سوال کر نے لگا ۔۔ٹی وی ۔۔ٹی وی آن کر دیں۔۔حقی صا حب نےبے بسی سے انکار میں سر ہلا یا۔۔زیبا سر ہا نے کھڑ ی مضطر ب تھی۔۔۔۔ شا ید چا ہ رہے ہیں کہ سب کو ٹی وی پر بتا دیا جائے۔۔۔حقی صا حب نے ہا تھ پھر ا ٹھا یا اور اپنی اگلیو ں کو جو ڑ کے قلم پکڑ نے اور کچھ لکھنے کا اشا رہ کیا ۔۔شا ید انکے نو ا سے نے یا وصی بھائی( زیبا کے شو ہر)نے جلدی سے قلم انکے ہا تھ میں تھما دیا اور کا غذ ا نکے سینے پر رکھ دیا ۔۔
وہ قلم جو انہو ں نے شا ید ا کیا سی بر س پہلے اپنے ہا تھ میں تھا ما ہو گا ا سوقت بھی انکے ہا تھ میں تھا ۔۔وہ پیر جو ہر مو سم کو اپنی ٹھو کر میں رکھتے تھے بے جان تھے مگر وہ ذہن پو ری طرح اسو قت بھی بیدا ر تھا جو را ت را ت بھر جا گ کے علمِ کے حضو ر سجدے گزار نے
اور ’’ قلم گو ید کہ من شا ہ جہاں نمــ‘‘ کی تسبیح پڑ ھنے میں مصر وف رہتا تھا ‘‘ میر ی آنکھیں اس ذ ہن کی بیدا ری کے معجزے کی گو ا ہ حیرا ن و ششدر تھیں ۔ حقی صا حب نےاپنی ذہنی قوت سے ایک با ر پھر اپنے بیجا ں ہا تھ کو اٹھا کے کچھ لکھنے کا اشا رہ کیا ۔ زیبا نے قلم انکے ہا تھ میں پکڑا یا انہو ں کا غذ پر کچھ لکھنے کی کو شش کی ۔۔چند لکیر یں تھیں یا شا ید یہ وہی گیت تھا وہی دھن تھی جس کے لئے ایک با ر انہو ں نے کہا تھا’’صر یر خا مہ کی مد ہو ش کن دھن پر میری رو ح را ت بھر رقص کرتی ہے‘‘
سر!! آ پ نے کہا تھا ایک مر تبہ ا یک تعز یتی جلسے کے مو قع پر ’’اسے تعز یتی محفل مت بنا ئو بلکہ اتنے دن اس ہستی کے
ہمیں میسر رہنے کے جشن کی محفل رکھوــ‘‘ ہم آ ج آ پ کے اتنے دن ہمیں میسر رہنے کا جشن منا رہے ہیں اور آ پ کے صر یر خا مہ کی مد ہو ش کن دھن پر ہما ری عقید تیں محو رقص ہیں۔