محبت اور اوہام کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ جذبہ پنپتا ہی اندیشوں کے سائے میں ہے۔ ملاپ کی مسرت کے مہکتے پھول کچھ اس طرح ان دیکھے اور ان جانے خوف کے پتوں کی چلمن میں چھپے ہوتے ہیں کہ انہیں ایک روز جدائی کے کیڑے کھا جاتے ہیں۔ ہم نا دانستگی میں اپنے اوہام کو دلوں میں سینت سینت کر رکھتے ہیں۔ انہیں اپنا خون پلا کر پالتے رہتے ہیں۔ انہیں بڑے جتن سے بڑا کرتے ہیں۔ ہم عجیب لوگ ہیں۔ اپنے دشمن کو اپنے گھر میں رکھتے ہیں اور اسی کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی روش ہے جو کسی مخصوص علاقے یا قومیت تک محدود نہیں۔ جہاں جہاں محبت ک جائے گی، خوف سائے کی طرح ساتھ چلتا رہے گا۔ ہم اپنے ان اندیشوں پر اپنے توہمات کا غلاف چڑھانے کی کو شش کرتے ہیں۔ کبھی برِّصغیر کے کسی گاؤں کے کسی مزار پر کپڑے کی دھجیاں باندھ کر، کبھی دل کے آنگن میں کوئي منّت مان کر، کبھی روم کے تریوی فوارے میں سکے پھینک کر اور کبھی سویڈن کے دریائے کلیریورن کے پل پر تالے باندھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی جانے کون،کب، کہاں بچھڑ جائے۔