اپنی پرانی ڈائری سے وقت کی گرد جھاڑ کر یہ ورق نکالا ہے دیکھیں کوئی سماجی نفسیاتی پہلو کی گرہ کھلتی ہے کہ نہیں
پرائمری اسکول میں ہم تین سہیلیاں ساتھ ساتھ بیٹھا کرتے تھے
نرگس….. جو اپنے نام کی طرح حسین گہری سبز آنکھوں اور سنہری بالوں کے ساتھ بہت ہی ناز اور نخروں میں گھری رہتی ،
دوسری میں جو اپنے اول جلول حلیے اور چشمے کے ساتھ چشماٹو اور کبھی عینکو کے خطاب کے باوجود کلاس بھر میں مقبول تھی اور مقبولیت کی وجہ میری حساب اور دوسرے مضامین میں غیر معمولی کارکردگی تھی ساری لڑکیاں شہد کی مکھیوں کی طرح میرے ارد گرد منڈلایا کرتیں مگر میں اپنی ہی دنیا میں مگن رہتی ایک مرتبہ آرٹ کی کلاس میں ٹیچر نے میری ڈرائنگ کو ایک آرٹسٹ کی ڈرائنگ قرار دیا تو مجھے کچھ اعتماد آیا ورنہ میں تو ان لڑکیوں سے مرعوب رہا کرتی جو خود کو بہت بنا سنوار کر رکھتیں اور اپنا کام بھی بہت صفائی کے ساتھ ٹیچر کو پیش کرتیں تھیں ،
تیسری سہیلی یاسمین تھی جو ان میں سے کسی بھی خوبی سے آراستہ نہیں تھی دیکھنے میں بھی بلکل سانولی اور پڑھنے میں بھی دبو ، لیکن مجھے اس میں دنیا جہاں کی خوبیاں نظر آتیں ہم اکثر ساتھ کھیلا کرتے اور خوب باتیں کرتے ہاں یاد آیا وہ بہت تیز بھاگتی تھی اس لئے پکڑم پکڑائ کے کھیل میں اسے کوئی شکست نہیں دے پاتا تھا وہ دوسرے کھیلوں میں بھی سب لڑکیوں سے آگے رہتی تھی لیکن اس کی یہ خوبی کسی کی نظر میں ہی نہ آتی تھی –
پڑھنے لکھنے میں اس کا بالکل دل نہ لگتا اور وہ اکثر میرا اسکول کا کام نقل کر کے پاس ہونے کی کوشش کیا کرتی یہ کام تو نرگس بھی کرتی اکثر دیر سے اسکول آتی اور گیٹ بند ہونے پر گھر واپس لوٹ جاتی لیکن ٹیچرز اس پر اتنی مہربان تھیں کہ مجھے ہدایات جاری ہوتیں ” سلمیٰ ذرا نرگس کی مدد کر دینا یہ سوالات سمجھنے میں” جبکہ یاسمین کو اسی بات پر ڈانٹ پڑتی کہ سلمیٰ کی نقل کرتی رہیں تو اسکول سے نکال دی جاؤ گی ، میری سمجھ میں نہ آتا کہ وہ ایسا کیوں کرتی تھیں-
خیر — ایک دن کا قصہ سناتی ہوں جس کے لئے یہ تمہید باندھی –
اسکول میں کوئی ٹیبلو شو ہو رہا تھا جس کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں ، کلاس سے لڑکیوں کا ایک گروپ منتخب کرنے کے لئے جب ٹیچر ہماری ڈیسک پر پہنچیں تو مجھے اور نرگس کو اشارہ کیا کہ ہم سامنے بنے ہوئے ہال میں اکٹھا ہو جائیں ….. یاسمین کو ٹیبلو میں شریک ہونے کا بہت شوق تھا وہ صبح سے اس پروگرام کی ہی باتیں کئے جا رہی تھی …. ہم دونوں کے پیچھے ….. وہ بھی ہمارے ساتھ آنے کو اٹھ کھڑی ہوئی مگر …. انتخاب کرنے والی ٹیچرز میں سے ایک نے اسے ایک جھٹکے سے کرسی پر دھکیلتے ہوئے کہا ” تم کہاں آ رہی ہو……. یہ ٹیبلو صرف گوری لڑکیاں کریں گی ،اس مغرور آواز پر میں نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا ، یاسمین کی روشن سیاہ آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور اس کا رنگ پہلے سے بھی زیادہ گہرا سانولا لگ رہا تھا میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے بھی اپنے ساتھ لے جانے کے لئے ٹیچر سے ضد کرنے لگی ” مس …… یاسمین بہت اچھا گاتی ہے ….. اسے بھی لے لیں ” نک چڑھی ٹیچر نے مجھے ڈانٹ پلائی اور چڑ کر بولیں “ا گر تم نے ضد کی تو تمہیں بھی نکال دیں گے…… چلو سیدھی ہال میں چلی جاؤ” ، میں نے اپنی بات کی حمایت حاصل کرنے کو نرگس کی طرف دیکھا….. مگر وہ تو خوشی خوشی اچھلتی کودتی ہال کی طرف جا رہی تھی اس لمحے پہلی بار میں نے اپنے اور یاسمین کے ہاتھوں پر نظر ڈالی اور مجھے احساس ہوا کہ میرے ہاتھ زیادہ سفید تھے ……میں نے سوچا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ….مجھے خود پر فخر نہیں محسوس ہوا بلکہ افسوس کی ایک گہری لہر میرے اندر سے اٹھی اور میرے ننھے ذھن نے سوچا یاسمین تو اتنی پیاری ہے انہیں نظر کیوں نہیں آتا ….. وہ تو اپنا لنچ بھی مجھ سے شیئر کرتی ہے …پھر اس کی . آواز کتنی اچھی ہے حاف ٹائم میں لڑکیاں اس سے نظمیں سنتی ہیں تو کتنا اچھا لگتا ہے ….. مگر یہ سب کچھ میں کہہ نہ سکی …… اور خرانٹ ٹیچر کی گھورتی ہوئی آنکھوں سے خوف زدہ پژمردہ سی ہال کی طرف بڑھ گئی –
لیکن……. انتخاب کے اگلے مرحلے پر مجھے بھی ٹیبلو کی کاسٹ سے خارج کر دیا گیا کیونکہ ججز کے مطلوبہ معیار حسن پر پوری نہیں اتری تھی نرگس ..البتہ فائنل تک پہنچی مگر پھر جانے کیا ہوا …… وہ ٹیبلو تعطل کا شکار ہو کر کبھی منعقد نہ ہو سکا لیکن میرے ذہن میں نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ گیا وقت کی گرد میں بظاہر دھندلا گئے تھے لیکن آج فی کے ڈائری لکھنے کے مطالبے پر ابھر کر سامنے آگئے –
اب میں خود ماضی کی اس یاد کا تجزیہ کرنے بیٹھی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی جبر اور امتیاز کے خلاف اٹھنے والی سوچ کا بیج اسی دن میرے ذہن میں نمو پا گیا تھا
جو اس وقت ٹیچر کے سخت رویئے سے وقتی طور پر دب گئی تھی اور ایک بات آج سوچتی ہوں تو یاسمین کے چڑچڑے پن اور باغیانہ رویے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے جو اس وقت میرے لئے ایک معمے سے کم نہ تھی کیونکہ وہ تو میری طرح پرانے یونیفارم اور بغیر پالش کے جوتے پہن کر نہیں آتی تھی اور اسے جیب خرچ بھی خوب ملتا تھا