ڈائری کا ایک ورق

میری ڈائری کا ایک ورق ۔ ۔ ۔ ذیشان مضطر

ذیشان مضطر
(نوٹ: اب ایک طویل عرصے سے ڈائری لکھنا چھوڑی ھوئی ھے بہت سی مصروفیات کی وجہ سے لیکن کالج تک ایک شوق تھا۔ آج مختلف صفحات پلٹتا رھا، یہ ایک صفحہ دلچسپ لگا تو شیئر کر رھا ھوں۔)

یہ غالباََ تین سال پہلے کا واقعہ ھے اس وقت میں کالج میں پڑھتا تھا۔ھوں۔ شکر ھے اس بھیانک خواب سے نجات ملی وہ واقعی ایک خواب ھی تو تھا۔ اچانک کیسے یہ سب ھوگیا۔ پرسوں بروز بدھ کلاس میں ٹیچر کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھاتے ھوئے ھم دوستوں نے اودھم مچانا شروع کر دیا۔ کلاس سے باھر کی طرف مارچ کی تاکہ حسینائوں پر پروبیبیلیٹی تھیوری ایپلائی کر سکیں۔ عادل ھمیں میں سے ایک ھے اور ھماری شیطانیوں میں ایک مرکزی کردار بھی۔ حسبِ معمول کالج کے میدان کے عین درمیان میڈم سحر نے روک لیا اور طالبات کی جانب (جیسا کہ ھمیشہ ان کا خیال ھوتا ھے) ھمارے ارادے دیکھ کر پاس بٹھا لیا اور دینِ اسلام پر گھنٹے کا لیکچر دے ڈالا۔ کیا لڑکے کیا لڑکیاں، وہ سب کو بور کیا کرتی ھیں ۔ ایک منٹ کی بات کرنے میں دس منٹ لیتی ھیں۔ اس کے بعد گرائونڈ میں لگے اونچے پاکستان کے جھنڈے کی جانب پیش قدمی ھمارا مقصد ٹھہرا۔ طلحہ اور حسن علی کے کندھوں پر میں سوار ھوا اور میرے کندھوں پر راشد۔ راشد کا ایک دوست جسے (اس کا نام بھی طلحہ ھے) راشد کے کندھوں پر سوار تھا اور اوپر اعزاز، اس پر عادل۔ یعنی سب سے اوپر عادل تھا۔ طاھر سی بات ھے سب سے نیچے کھڑے طلحہ اور حسن علی پر پریشر زیادہ ھوگیا تھا۔ یہ عمودی قطار جونہی غیرمتوازن ھوئی تو سب ایک دوسرے کے اوپر آ گرے مگر عادل الٹا نیچے گرا سر کے بل۔ سر سیدھا میدان پر لگا اور اس کے بعد ھم سب حواس باختہ ھو کر اسے دیکھنے لگے۔ وہ فوراَ۔ اٹھا اور سیدھا کھڑا ھوگیا اور گھور کر ھم سب کی جانب دیکھنے لگا۔ پھر زور زور سے ھنسنے لگا، قہقہے لگانے لگا، اس کے سر سے خون بھی بہہ رھا تھا۔ میں، طلحہ، حسن، راشد ھم سب ڈر گئے تھے کہ یہ اسے کیا ھوگیا۔ جونہی وہ ھنسا تھا تو ھم نے سمجھا مذاق کر رھا ھے لیکن وہ مذاق نہیں تھا بلکہ اسے کوئی دماغی چوٹ آ گئی تھی۔ وہ اپنے ہوش و حواس کھو چکا تھا۔ کچھ اور طلباء نے یہ منظر دیکھا تھا اور اطلاع وائس پرنسپل تک پہنچ گئی تھی۔ ایمرجنسی میں عادل کو ھسپتال پہنچایا گیا۔ میں اور حسن بھی اپنی کتابیں کالج ھی میں چھوڑ کر ھسپتال الگ سے روانہ ھوگئے۔ کل رات تک کا دن میرا ھسپتال ھی میں گزرا ھے۔ میں اور ھم سب خود کو مجرم تصور کر رھے تھے۔ عادل کی فیملی کے سبھی لوگ بہت اداس تھے۔ ان تک کہانی کچھ اور پہنچائی گئی ھے۔ ھمارے دیگر دوستوں نے وائس پرنسپل کے ذریعے یہ مشہور کر دیا کہ یہ پھسل کر گرنے سے ھوا اور پھر اچانک دماغ پر اس کا اثر پڑا کیونکہ سر پر چوٹ لگی ھے اور یہ بات پھیل چکی تھی۔ مگر میں کچھ بھی کہنے سننے کی حالت میں نہ تھا۔ میرا سارا وقت عادل کے بستر کے پاس گزرا۔ اس کا سی ٹی سکین ھوا، اسے سائیکیٹرسٹ نے اکیلے میں وھیں بستر پر قریباََ دو گھنٹے چیک اپ کیا۔ وہ کسی کو بھی پہچاننے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اس کا یہ رویہ ھمیں اندر ھی اندر ڈرا رھا تھا۔ حسن اور میں اس کے لئے رات تک تو مختلف کھانے پینے کی اشیاء لا چکے تھے۔ حسن نے اپنے بھائی کے ذریعے گھر سے بھی کچھ کھانے کی اشیاء بنوا کر منگوا لی تھیں۔ پھر آدھی رات میں ھی وہ نیند سے اٹھا تو حسن کو دیکھتے ھی زور سے پکارا: “حسن ٭٭٭ یہاں کیا کر رھا ھے؟ گھر نہیں جانا تو نے”۔ میں اور حسن ایک دوسرے کی طرف دیکھنے والے اور فوراََ اس کے قریب ھو کر بولے “کیا حال ھے؟ اب خیریت ھے؟”۔ کہنے لگا: “ھاں ٹھیک ھوں۔ کوئی چوٹ لگی تھی کالج میں تم لوگوں کی وجہ سے۔”۔۔۔۔ میں چونکہ خود کافی ڈسٹرب تھا فوراََ اسے کہا “ابے ساری غلطی تیری تھی، کیوں اتنا اوپر چڑھا تھا، ھم نے تو کچھ نہیں کیا۔” اور پھر وہ ھنسنے لگا۔ ھم نے زور دار نعرے مارنے شروع کر دیئے تھے آدھی رات میں۔ اور پھر نرسنگ سٹاف نے تھوڑا سا بے عزت کیا تھا ،،،زیادہ نہیں۔ میں آج دن کو ھی گھر لوٹا ھوں۔ والدین کو صورتحال فون پر بتا دی تھی۔ ایسا عجیب و غریب واقع پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ عادل مزید ایک ھفتہ ھائوس ریسٹ پر ھے اور دوائیں لیتا رھے گا۔ اللہ کا شکر ھے ایک بڑی مصیبت حل ھوگئی۔