جب موسم سرما کی سردی زمین سے آسمان تک یخ بھر دیتی ہے اور سردی سے ٹھٹھرتی ہوئی مخلوق اپنے اپنے آشیانوں اور کاشانوں میں منجمد بیٹھے ہوئے ہوں .. کس نے سوچا ہوگا کہ ہماری اس عظیم زمین کے سینے میں کوئی لاوا پک رہا ہے –اس حقیقت سے بےخبر ابھی تو ہم موسم بہار کی آمد کے منتظر تھے جو کہ قدرتی مناظر کے شباب کا موسم ہوتا ہے .مگر ابھی اس نئی صدی میں قدرت کی اس فیاضی سے لطف اندوز ہونے کے لئے نہ ہونٹ گنگنا پائے تھے، نہ پاؤں تھرک پائے تھے …کہ قدرت نے اپنی نامہربانی کی ایسی تاریخ ہماری نئی صدی کی پیشانی پر کندہ کی کہ ساری انسانیت لرز اٹھی … اس زمین کی بہاریں لوٹنے میں ہم اتنے مدہوش ہو جاتے ہیں کہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے سینے میں لاوا بھی پکتا ہے ،وہی زمین جو ہماری پرورش کرتی ہے اپنے غصے سے پل کے پل میں ہمیں نگل بھی سکتی ہے .قدرت کی نا مہربانی کا شکار یوں تو ہم کسی نہ کسی شکل میں ہوتے رہتے ہیں … مگر ایسی لرزہ خیز تصویر سے انسان تو کیا شیطان بھی پناہ مانگتا ہوگا –
کس نے سوچا تھا کہ ٢٦ /جنوری ٢٠٠١ء میں جب راجپتھ پر لوگ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار آزادی کے اکیاون سال بعد شاداں و فرحاں یوم جمہوریہ کےدن قومی پرچم کوکھلے آسمان میں لہرانے کے منظر سے محظوظ ہو رہے ہونگے..سب کی نگاہیں آسمان کی طرف اور ان نگاہوں کے خواب اس سے بھی کہیں اونچے اڑ رہے ہونگے ،عین اسی وقت قدرت ہمارے لئے کچھ اور طے کر رہی تھی … خاموش پرسکون زمین کے سینے میں ہمارے لئے تباہی کا ایک منظر تیار ہو رہا تھا … گجرات میں آنے والا زلزلہ ہماری ہر طاقت ،ہرسوچ، ہر کاوش ،ہر درد کا محور بن گیا … سب کچھ بھول کر اس وقت ملک کا ہر باشندہ اس کرب کو محسوس کر رہا ہے اور اپنے اپنے طور پر ہر امکان سے ان کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہتا ہے –آزادی کے بعد یہ دوسرا سب سے زیادہ شدت سے آنے والا زلزلہ تھا،جس نے نہ کہ ملک کے کئی شہروں کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ کچھ ایک کا نام تو صفہ ہستی سے یوں مٹا دیا کہ انسانی عقل حیران ہے … چند لمحوں قبل جہاں ہنستے کھیلتے انسانوں کی دنیا آباد تھی،جسے بڑھنے اور سنورنے میں برسہابرس لگ جاتے ہیں .. وہی دنیا قدرت کی ستم ظریفی کا شکا ر ہوکر صرف چند لمحوں میں کیسے ملبوں اور لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی –
آج ترقی کی اتنی منزلیں طے کرنے کے بعد،سائنس اور ٹیکنالوجی کی نمایاں پیش رفت کے باوجود قدرت نے ایک بار پھر اپنے صرف ایک رخ سے انسان کو بونا ثابت کر دیا .
اس تباہ کن زلزلے کا مرکز بھج سے تقریبا بیس کلو میٹر دور تھا .انجر اس مرکز سے سب سے زیادہ قریب تھا ،اس لئے انجر کے پاس کا گاؤں سکھ پور میں تو دور دور تک ملبوں کے ڈھیر کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا… احمد آباد ،کچھ ،بھج ،راجکوٹ ،سریندر نگر ،سورت ،پوربندر ،جام نگر ،پتن ،بھروج ،نوساری ،بچھاو،راپور وغیرہ میں کتنے مکان اور فلک بوس عمارتیں پل کی پل میں زندہ انسانوں کا مدفن بن گئیں –
چند لمحے قبل جب سب اپنے روز کے معمولات زندگی میں مصروف ہونگے … کسی کی آنکھوں میں کوئی خوف نہیں …نہ ان آنکھوں میں موت کی پرچھائیں ناچی ہوگی،ماوں نے ڈر کر بچوں کو سینوں سے نہیں چپکایا ہوگا …،سورج ،پیڑ،آسمان ،چرند –پرند سب اپنی جگہ موجود روز کے منظر کا ایسے ہی حصہ ہونگے … تب زمین لرزی اور ایک خوفناک گڑگڑاہٹ موت بن کر سب کے سروں پر برس پڑی – ایک دو نہیں ،سو دو سو نہیں ،ہزاروں گھروں میں لاکھوں لوگوں کو چشم زدن میں موت کی آندھی چاٹ گئی … قبرستان ہی قبرستان … کیا یہاں کوئی شہر تھا ؟؟؟ بستیاں تھیں ؟؟؟ ہر طرف خاک اور دھول –ان شہروں کے ہمارے پاس صرف نام بچے ہیں نشان نہیں – قدرت نے کسی کو نہیں بخشا نہ معصوم بچوں کو جو بھج میں یوم جمہوریہ کی تقریب میں اسکول میں جمع تھے –وہاں چار سو بچے اور ایک سو پچاس اساتذہ عمارت میں دب گئے ،تو دوسری طرف صدر اسپتال میں چار سو افراد..ڈاکٹر، نرس،مریض سب اجل کا نوالہ بنے –کون کون سی مثال دی جائے –صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب سونے والے پل کے پل میں تاریخ کا حصہ بن گئے …. سب سو گئے تو انسانیت جاگ اٹھی — ملک کے مختلف حصوں سے مدد پہنچنے لگی بلکہ غیر ممالک نے بھی خود کو پیچھے نہیں رکھا -،بر وقت مدد اور کوششوں سے چند زندگیاں بچائ جا سکیں … مگر جو زندہ رہ گئے زندگی ان کے لئے نئے سرے سے ایک جہاد ہے –یہ فوری مدد یہ ہمدردیاں وقت کے ساتھ پھیکی پڑتی جائینگی –تب قدرت کی ستم ظریفی کا احساس ان کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کریگا ،اب ان پر جو گزرا اس کا بوجھ ساری زندگی انہیں کچوکے لگائیگا- مگر قدرت انسان سے یہیں پر ہار مان جاتی ہے-انسان کی ہمت ہر مصیبت کے بعد اسے پھر سے کھڑا کر دیتی ہے ،اور انسان کی ہمت کی یہی مثال راج کوٹ میں زلزلے کی زد میں آئے لوگوں نے دی جہاں نبے فیصد آبادی ختم ہو چکی ہے مگر بچے ہوئے دس فیصد لوگ نئے سرے سے جوجھتے نظر آئے .خود اپنے ہاتھوں سے ملبوں کو کنارے کرتے اور اپنے جینے کی راہ نکالتے نظر آئے –
لیکن اس سانحے نے ہمارے سامنے یہ سوال ضرور کھڑا کر دیا ہے کہ ایسے تباہ کن زلزلوں کے آنے کے امکانات کی نشاندہی پہلے سے ممکن نہیں ؟؟ یقینا انہیں آنے سے نہیں روکا جا سکتا مگر ان سے ہونے والی ہلاکتوں سے بچا تو جا سکتا ہے .ہر سال دنیا میں ١٨ بھیانک زلزلے آتے ہیں مگر زیادہ تر غیر آباد علاقوں میں ،اگر ہم آنے والے ان زلزلوں کے رخ اور مرکز کا اندازہ لگا لیں تو شائد ہمیں آبادی کو منتقل کر دینے سے ایسی بھیانک صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے .یہ کاوشیں اور یہ جنگی پیمانے کی مدد اگر خطرے کو سونگھ کر پہلے ہی کر لی جائیں تو شائد ہمیں اتنے بڑے نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے … مگر ہم تو وہ ہیں کہ جب قدرت ہم پر مہربان ہوتی ہے تو اپنے اپنے تعصب کے ہاتھوں ہم زمین پر تباہی کا منظر خود ہی پینٹ کرتے رہتے ہیں .
ہمیں بس اتنا سمجھنا پڑیگا کہ کوئی بھی شکست انسان کی اپنی شکست ہے ،کوئی بھی ترقی اپنی ترقی اور کوئی بھی موت اپنی موت ہے .اگر یہ چھوٹی سے بات ہم سمجھ لیں تو یقینا ہر اکائی ایک طاقت بن سکتی ہے اور ہمیں ہر مشکل سے لڑنے کا حوصلہ دے سکتی ہے . اور ہم اس کرۂ ارض کو خوبصورت بنائے رکھنے میں مددگار ہو سکتے ہیں . مگر آہ …. اے اجل اے نا مرادوں کی مراد… تجھے مجھ سے ڈائری کا یہ سیاہ ورق بھی درج کروانا تھا –