نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

ڈھول کی تھاپ پہ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ممتاز رفیق

اس شہر میں میری آواز کب سے مردہ پڑی ہے
بہت کم مول پر مجھ کو بیچا گیا
یہ میرا شہر ہے اور یہاں پہ کوئی مجھ سے واقف نہیں
میرے اندر بھڑکتی ہوئی آگ ہی میری پہچان ہے
میرے لفظوں سے اٹھتی یہ لپٹیں میرے ہونے کا اعلان ہیں
میں زندہ رہوں گا یا کہ نہیں
یہ سوچنے کی مجھے کوئی فرصت نہیں
لفظ کو کاڑھنے کا ہنر کوئی آسان ہے
سیکھنے کے جتن میں ڈوبے ہوئے
کیا گردن جھگائے خاموش پھرنا، بری بات ہے؟
جس طرف دیکھیے ڈھول کی تھاپ ہے
اپنے ہونے کا اعلان کرتے ہوئے تم، کیوں نہیں سوچتے
نام آوری، خیرات میں بٹنے والا کوئی کھوٹہ سکہ نہیں
لیکن نہیں، تمہارے لیے یہ سمجھنا ہی ممکن نہیں
تم ڈھول کی تھاپ پہ رقص کرتے رہو
روز جیتے رہو، روز مرتے رہو

Leave a Comment