نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

کچھ دیر پہلے کی بات ،،،،،،،،،،،،،محمد جمیل اختر

یہ بات کب کی بات ہے
ہاں ابھی کچھ دیر
پہلے کی بات ہے
جہاں شور برپا تھے
آواز کو آواز
سنائی نہ دیتی تھی
ہاں اسی چمن میں
ہاں اسی آنگن میں
ہاں اسی دروازے کے باہر
کئی بچے ، ہر شام
کھیلا کرتے تھے
یہ بات کب کی بات ہے
ہاں ابھی کچھ دیر
پہلے کی بات ہے
کہ مہک رہے تھے
درو بام سبھی
اتنے اچھے تھے
سحر و شام ابھی
یہ بات کب کی بات ہے
ہاں ابھی کچھ دیر
پہلے کی بات ہے
یہ مقفل دروازہ
یہ در و دیوار سے
برستی ویرانیاں
یہ تنگ و تاریک گلیاں
اور ان میں بسا رنجور سناٹا
ہر دیوار پہ گویا
کسی آسیب کا سایہ ہو
ہر دیوار سے لٹکتے جالے
اس بات کے گواہ ہیں
کہ اس ویرانے میں
صدیوں سے کوئی آیا نہیں
کب سے یہاں اندھیرہ ہے
بس ویرانیوں کا ڈیرہ ہے
یہ بات کب کی بات ہے
ہاں ابھی کچھ دیر
پہلے کی بات ہے
لیکن میرے گلشن کو اجاڑنے والوسنو
گولیوں سے کہاں علم کی شمع بجھی ہے
کہ علم تو ازل سے ابد کی کہانی ہے
کہ علم تو حکم ربانی ہے
گولیوں سے کہاں علم کی شمع بجھی ہے
یہ چراغ جو جلتا آیا ہے
یہ چراغ یونہی جلتا جائے گا
کہ علم تو ازل سے ابد کی کہانی ہے
کہ علم تو حکم ربانی ہے
پھر سے آئے گی گلشن میں بہار
تم دیکھنا تو سہی
ختم ہوگی یہ شب سیاہ
تم دیکھنا تو سہی
مہک اٹھیں گے دورودیوار
تم دیکھنا تو سہی
پھر سے آئے گی گلشن میں بہار
تم دیکھنا تو سہی

Leave a Comment