چھبیس سالہ بھکشو نے دو برس پہلے ہی اپنی محنت اور تپسیا سے نروان حاصل کرلیا تھا، بزرگ کہتے” اُس کی اکچھا ہے وہ جس آیو بھی وردھان دے۔ سو اس نے اپنے آشیرواد کی ورشا کردی”۔ اتنی ورشا کہ بکشو مہایانہ کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ سدارتھ(گوتم) کے مجسموں کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے بولتے” تیری آتما میرا شریر ہے مجھے اپنی آتما اور اس کی آتما جس نے تیرے شریر میں اپنی آتما رکھی ، مجھے سونپ دے۔ میرے کلبوت میں تیرا آلاپ ہے، اسے شکتی دے۔ مجھے کپل وستو کی سوگندھ سنسار میلا ہے۔ چار سو انیائے ہے۔ نرک ہے، پرکاش بجلی کے کوندے کی طرح لپکتی ہے اور سیاہ سفید سب ملیا میٹ ہو جاتا ہے، جاگت کون ہے یہاں، وہی جو من کی شکتی اور شانتی کی تلاش میں نکلتا ہے، بھوک پیاس اور شریر کی واسنا سے دور بہت دور ایک روشنی ہے۔ وہی ہمارا مقدر ہے۔ انسان میں دھیرج نہیں، تپسیا نہیں، نروان ہمالہ کی اوٹ میں چھپ چکا”۔ بھکشو مہایانہ قدم قدم لفظوں کی قاشیں بانٹتے گلی گلی سورگ تقسیم کرتے ۔ حیرانی کی بات بھی کیا تھی، ریاست کے تمام سدھارتھوں نے ان کی شکتی کا عتراف کیا تھا۔ آج جب وہ جانوروں پہ ظلم کے خلاف بازار میں نکلے تو ان کے پیچھے ان کا پالتو کتا بھی تھا۔ “آتما سورگ ہے، ستیہ، ست ہے، انش انش میں آتما ہے، بھاونا مکت کون ہے،،، تو اودیہ کیوں، ظلم کیوں” مہایانہ بولتے جاتے اور لوگ “حق ہے، ستیہ ہے” کہتے ان کے پچھے چلتے جاتے۔جاگت مہایانہ نے ہمیشہ اس کتے کو وہی کھلایا جو خود کھاتے۔ دو برس میں بھکشو کی صحبت میں یہ کتا اعلی نسل کا جانور بن چکا تھا۔ مہایانہ کی سادگی کا یہ عالم کہ سرخ رنگ کی دو چادروں میں ملبوس شبدوں کے رس بانٹتے کھڑکیوں دروازوں سے “جے ہو جے ہو” سنتے جاتے ۔ اپنی انا ختم کرنے کے لئے سر کے بال تک ختم کرا لئے کہ لمبے بال مہیلاوں کے دلوں میں واسنا کو جنم دیتے ہیں۔ بیچ بازار ایک چوراہے پہ پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ 12 سالہ روہنگیا کو لوگ گھسیٹے ایک گندے نالے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ مہاہانہ اور اور ان کے کتے نے یہ منظر دیکھا تو ان کے قدم تیز تیز اٹھنے لگے، قطار در قطار لوگ پیچھے ہٹنے لگے۔ مہاہانہ کے کتے نے ایک چھلانگ لگائی اور روہنگیا کی گردن پہ دانت گاڑھ دئیے، خون میں لت پت روہنگیا لڑکے نے سارے جسم کی طاقت اکٹھی کی اور دونوں ہاتھ کتے کے جبڑوں کیجانب بڑھانے کی کوشش کی کہ مہایانہ کے ہاتھوں میں حرکت آس پاس کے سبھی چہروں کو شانت کر گئی۔ ایک جست میں انہوں نے ساتھ کھڑے آدمی سے آہنی ہتھیار جھپٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے روہنگیا کے ٹکرے نالے کا پانی سرخ کرنے لگے۔ کتا پیچھے ہٹ کر مسلسل بھونکتا جا رہا تھا اور رونگیا کے ٹکڑے سونگھتا جا رہا تھا۔ مہایانہ کے پیروکاروں نے کئی بار کہا، “سدھارتھ شانتی، ساکیہ منی شانتی۔ ” کچھ دیر بعد ان کے ہاتھ رکے، بھرے بازار چپ چھانے لگی،،، ہتھیار کو ایک طرف رکھا،،،، بھکشو مہایانہ نے کتے کے گلے میں بانہیں ڈالیں،،، اور، زارو قطار رونے لگے۔