اپنے چرسی دوستوں کے حلقے میں بیٹھ کر’’ واری واری‘‘ کھیلتے ہوئے اُس نے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے کئی مرتبہ بھرے ہوئے سگریٹ کے کش لگائے تھے لیکن اس لت کا باقاعدہ اسیر اُس وقت تک نہ ہوا جب تک کہ پہلی مرتبہ اُس نے خود اپنے ہاتھوں سے سگریٹ بھر کر نہ پی لی۔
یہ تجربہ اُسے ہزارہا کتابوں کا عرق پی جانے سے کہیں زیادہ دلچسپ لگا۔
سگریٹ کو دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان دبا کر ایسے گھمانا کہ اس کے اندر کا سارا تمباکو بائیں ہتھیلی پر منتقل ہو جائے اُسے رائیٹ اور لیفٹ کے گرد گھومتے آج تک پڑھے تمام تر فلسفے کا نچوڑ لگنے لگتا جس کی انتہا، دونوں ہتھیلیوں کے مابین اس برادے کو اچھی طرح مسلنے کے بعد، ایسے اجزاء سے چھٹکارا پانے پر ہوتی جو پسنے سے رہ گئے تھے۔
پھر وہ خالی ہو چکے سگریٹ کو ایک طرف رکھتا اور چرس کے سٹاک سے اپنی چھنگلی کا پور بھر حصہ توڑ کر ماچس کی تیلی کے پچھواڑے میں پروتا اور لائٹر کے شعلے پر رکھ دیتا۔ ایسا کرتے ہوئے اُسے اکثریت ، اقلیت، ذات ، جنس، قبیلہ، مذہب،عقیدہ ،رنگ،نسل، زبان اور فرقے جیسی چیزیں سائیڈ میں پڑے خالی سگریٹ کے شیل جیسی لگنے لگتیں جنہیں بھرنا نہ بھرنا خود اُس یا اُس جیسے کسی اور چرسی کے اختیار میں تھا۔
چرس کے ٹکڑے کے مکمل جھلس جانے کے بعد اُسے بائیں ہتھیلی میں موجود تمباکو کے پسے پسائے ذرات کے ساتھ اچھی طرح ملا کر دوبارہ سائیڈ میں پڑے سگریٹ کے خالی شیل میں بھرنا اُسے ایک ایسے آرٹ جیسا لگتا جس کا چرچا کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مفکر پر گراں گزر سکتا تھا۔
ان سارے مراحل سے گزرنے کے بعد جب وہ ایک بھرے بھرائے سگریٹ کی نوک پلک سنوار کر اسے سلگاتا اور پہلے ہی کش کے ساتھ اس سے برآمد ہونے والے کثیف ترین دھوئیں کو نظام تنفس کی بھول بھلیوں کی سیر کرواتے ہوئے اپنے منہ اور نتھنوں سے خارج کرتا تو اُسے اپنا سارا وجود بھی اسی دھوئیں کے ساتھ ہوا میں تخلیل ہوتا محسوس ہونے لگتا۔ ۔۔اُسی ہوا میں جسے ان گنت دیگر لوگوں نے اپنے منہ اور نتھنوں کے راستے اپنے پھیپھڑوں تک لے جانے کے بعد اسی راستے سے واپس لوٹا دینا تھا ۔۔۔اُس کے وجود سے مکمل بے خبر رہتے ہوئے۔