مختصر کہانی مختصر کہانی تقریب ۲۰۱۵

تو ہی تو

علی حسرت ، ایک شاعر ، لفظوں حرفوں سے کھیلنے والا ، “ندرت ” کی کٹورا جیسی آنکھوں اور دلفریب مسکراہٹ کے سامنے اپنے اشعار پڑھنا بھول گیا ۔ وہ اپنی کتاب “ایک اداس شام ” کی تقریب رونمائی میں اپنی غزل سنا رھا تھا ۔ اور وہ سامنے بیٹھی ٹکٹکی لگائے محویت سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ اس کا دیکھنا کیا دیکھنا تھا کہ وہ ادھر ادھر دیکھنا بھول گیا ۔
” میری محبتیں ، میرے لفظ ،میری غزلیں اور نظمیں سب آپ کے نام ” تقریب کے اختتام پر علی نے اپنی کتاب کے پہلے صفحے پر یہ جملے لکھ کر کتاب ندرت کو تحٖفہ کر دی ۔ پھر گاہے بگاہے اس کا درد، اس کی چاہت ،اور اس کی تڑپ لفظوں کا پیراھن پہن کر ندرت کے وجود کو ایک نئے معنی دینے لگے ۔
مہینوں ، سال بیتتے چلے گئے کہ ایک دن ندرت ” ندرت آکاش ” کے نام سے محفل مشاعرہ میں اپنے اشعار سنانے پہنچ گئی ۔ علی حسرت کی تڑپ دیدہ تھی ۔ لیکن وہ اس سے نگاہیں چرائے اپنے اشعار کہتی رہی ۔
اختتام محفل پر وہ پھر اس کی راہ میں کھڑا تھا ۔ ” تیرے لفظوں میں پنہاں درد نے مجھے آرزردہ کردیا ۔ تیری محبت آسمانوں کو چھوتی ہے ۔ یہ درد تجھ تک کب منتقل ہوا ” وہ کچھ الجھا سا کھڑا تھا ۔
وہ مسکرائی اور گویا ہوئی ۔ ” یہ کیفیت یہ درد تیری ہی تو عطا کردہ ہے ۔ میں نہیں جان سکی کہ کب اور کیسے وہ لمحے مجھ پر طاری ھوئے جنہوں نے مجھے محبت ، بے قراری اور انتظار کی درد سے لذت آشنا کیا ”
” ایک بات پوچھوں ؟ علی حسرت نے قدرے دکھ سے اسے دیکھتے ہوئے سوال کی اجازت چاھی ۔
“جی”
” تمہارے بیان کردہ چاہت کے رنگوں میں جو عکس ہیں ۔ میں ان میں خود کو کہیں نہیں پاتا ؟
” تو خود کو کہیں نہیں پاتا تو میں بھی خود کو کہیں نہیں پاتی ۔ نہ تیرے لفظوں میں ، نہ تیرے حرفوں میں ۔ سب تیری تمنائیں ، سب تیری خواہشیں اور تو ہی تو ہوتا ھے ۔ ” یہ کہ کر ندرت اس طرف کو چل دی جس طرف اس کی خوشیاں تھیں ۔

Leave a Comment