میری اور اس کی کئی عادتیں مشترک تھیں ، تبھی چند روز میں ہمارا تعلق و دوستی برسوں کی رفاقت لگتی۔ اگر کچھ مشترک نہ تھا تو وہ میرا کتوں سے ہمیشہ خوف زدہ رہنا اور اس کا کتوں سے بے پناہ لگاؤ اور ہر دم کسی بھی آوارہ کتے کو گود لینے کی آرزو، ہماری شامیں تقریبا اکٹھے ہی گزرتی اس روز بھی میں معمول کے مطابق شام کو اس کے گھر پہنچا، لان میں موجود کرسیوں پر بیٹھ کر ابھی حال احوال ہی پوچھا تھا کہ اس نے گفتگو کا سلسلہ روکتے ہوئے اپنے ملازم کو آواز لگائی ،
میکس کو لانا
یہ میکس کیا بلا ہے؟
دو منٹ!
میں خاموش ہوگیا ، چند ہی لمحوں میں اس کا ملازم ایک پلا اٹھا ئے ہماری جانب آتا دکھائی دیا ، اور یاسر نے اس سے پِلا لیکر اپنی گود میں بٹھا لیا ، میں اسے کوسنے لگا اور اصرار کیا کہ اسے میری نظروں سے دور کرو مگر وہ لطف اندوز ہوتا اور ہنستا ہی رہا، اس کہ بعد تو یہ روز کا معمول ہوگیا اور میرے طعنے ، کوسنے ، دھمکیاں کچھ بھی ہوں، ہماری نشست کے دوران میکس کی موجودگی جو تقریبا مستقل ہوچکی تھی، کو دور نہ کرسکیں ۔
اور پھرغم روزگار نے ہماری ملاقاتوں کا تسلسل توڑ دیا اورمیں دوسرے ملک منتقل ہو گیا ہماری موبائل پر ہونے والی کبھی کبھار کی بات چیت میں بھی تعطل آگیا، گذشتہ دنوں میں جب وآپس لوٹا تو حسب پروگرام یاسر سے ملنے اس کے گھر پہنچا، دوران گفتگو میں نے میکس کی بابت استفسار کیا تو جواب ملا
اسے میں زہر دے چکا ،
مگر کیوں؟
اسے دوسروں پر بھونکنے کو رکھا تھا پرسالا مجھ پر ہی بھونکنے لگا تھا ۔۔۔۔ کا بچہ !
میں نے طنزا ہنستے ہوئے کہا دیکھ لیا انجام پھر ۔۔۔
اس پر وہ کھل کر مسکرایا اور میرے ارمانوں کو خاک میں ملاتے ہوئے کہنے لگا ، میکس نہیں تو کیا اس کی جگہ ٹائیگر ز کا جوڑاہے ، تمہیں ابھی ملواتا ہوں یہ کہتے ہی حسب روایت ملازم کو آواز دی اور میں سوچنے لگا کہ اب ہم تین کی بجائے چاروں شام اکٹھے گزاریں گے ، یہ خیال ہی مجھے دہشت زدہ کرنے کو کافی تھا۔ہم دوبارہ تواتر سے شام کو ملنے لگے ، اس روز بھی شام کو میں یاسر کہ گھر پہنچا تو دروازے پر بلدیہ کی گاڈی کھڑی تھی، اور بلدیہ ملازمین خون میں لت پت اس کے دونوں شیروں کو اٹھا کر گاڈی میں ڈال رہے تھے ۔
مجھے دیکھتے ہی یاسر بولا،
۔ ۔۔۔۔۔ ، جس نے پالا اسے ہی کاٹنے کو دوڈتے تھے اور تفصیل میں بتایا کہ ٹائیگرز نے یاسر کے ملازم پر حملہ کیا تھا جس کا نتیجہ موت کی صورت بھگتنا پڑا۔
مجھے تو کب سے اس موقع کی تلاش تھی سو اپنے تمام اعتراضات اس کے سامنے دوبارہ دہرانے کو تہمیداً اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ
دیکھ لیادرندوں کو پالنے کا نتیجہ میں نہ کہتا تھا اب بھی تو باز آوٗ گے ۔۔۔ میری بات جاری ہی تھی کہ اس نے درمیان میں ٹوکتے ہوئے پوچھا۔
باز آنے سے کیا مراد ؟
کیوں ، کیا ارادہ ہے پھر ۔۔
ارادہ کیامعنی یہ مرے تو اب نیا کتا ، کسی اور نسل کا۔۔
کیا مطلب ؟؟
اس نے میرا گال تھپتھپاتے ہوئے قہقہہ لگایا اور کہا
او !میرے بھولے بادشاہ پرانے کتوں کو مارونگا نہیں تو نیا کتا کہاں رکھونگا ۔ چلو اندر چل کے بیٹھتے ہیں۔
میکس کو لانا
یہ میکس کیا بلا ہے؟
دو منٹ!
میں خاموش ہوگیا ، چند ہی لمحوں میں اس کا ملازم ایک پلا اٹھا ئے ہماری جانب آتا دکھائی دیا ، اور یاسر نے اس سے پِلا لیکر اپنی گود میں بٹھا لیا ، میں اسے کوسنے لگا اور اصرار کیا کہ اسے میری نظروں سے دور کرو مگر وہ لطف اندوز ہوتا اور ہنستا ہی رہا، اس کہ بعد تو یہ روز کا معمول ہوگیا اور میرے طعنے ، کوسنے ، دھمکیاں کچھ بھی ہوں، ہماری نشست کے دوران میکس کی موجودگی جو تقریبا مستقل ہوچکی تھی، کو دور نہ کرسکیں ۔
اور پھرغم روزگار نے ہماری ملاقاتوں کا تسلسل توڑ دیا اورمیں دوسرے ملک منتقل ہو گیا ہماری موبائل پر ہونے والی کبھی کبھار کی بات چیت میں بھی تعطل آگیا، گذشتہ دنوں میں جب وآپس لوٹا تو حسب پروگرام یاسر سے ملنے اس کے گھر پہنچا، دوران گفتگو میں نے میکس کی بابت استفسار کیا تو جواب ملا
اسے میں زہر دے چکا ،
مگر کیوں؟
اسے دوسروں پر بھونکنے کو رکھا تھا پرسالا مجھ پر ہی بھونکنے لگا تھا ۔۔۔۔ کا بچہ !
میں نے طنزا ہنستے ہوئے کہا دیکھ لیا انجام پھر ۔۔۔
اس پر وہ کھل کر مسکرایا اور میرے ارمانوں کو خاک میں ملاتے ہوئے کہنے لگا ، میکس نہیں تو کیا اس کی جگہ ٹائیگر ز کا جوڑاہے ، تمہیں ابھی ملواتا ہوں یہ کہتے ہی حسب روایت ملازم کو آواز دی اور میں سوچنے لگا کہ اب ہم تین کی بجائے چاروں شام اکٹھے گزاریں گے ، یہ خیال ہی مجھے دہشت زدہ کرنے کو کافی تھا۔ہم دوبارہ تواتر سے شام کو ملنے لگے ، اس روز بھی شام کو میں یاسر کہ گھر پہنچا تو دروازے پر بلدیہ کی گاڈی کھڑی تھی، اور بلدیہ ملازمین خون میں لت پت اس کے دونوں شیروں کو اٹھا کر گاڈی میں ڈال رہے تھے ۔
مجھے دیکھتے ہی یاسر بولا،
۔ ۔۔۔۔۔ ، جس نے پالا اسے ہی کاٹنے کو دوڈتے تھے اور تفصیل میں بتایا کہ ٹائیگرز نے یاسر کے ملازم پر حملہ کیا تھا جس کا نتیجہ موت کی صورت بھگتنا پڑا۔
مجھے تو کب سے اس موقع کی تلاش تھی سو اپنے تمام اعتراضات اس کے سامنے دوبارہ دہرانے کو تہمیداً اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ
دیکھ لیادرندوں کو پالنے کا نتیجہ میں نہ کہتا تھا اب بھی تو باز آوٗ گے ۔۔۔ میری بات جاری ہی تھی کہ اس نے درمیان میں ٹوکتے ہوئے پوچھا۔
باز آنے سے کیا مراد ؟
کیوں ، کیا ارادہ ہے پھر ۔۔
ارادہ کیامعنی یہ مرے تو اب نیا کتا ، کسی اور نسل کا۔۔
کیا مطلب ؟؟
اس نے میرا گال تھپتھپاتے ہوئے قہقہہ لگایا اور کہا
او !میرے بھولے بادشاہ پرانے کتوں کو مارونگا نہیں تو نیا کتا کہاں رکھونگا ۔ چلو اندر چل کے بیٹھتے ہیں۔