ایک بہت بڑے ہجوم کے سامنے وہ سٹیج پر کھڑا چیخ رہا تھا۔ اس کی گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور تناﺅ نے سارے جسم سے خون نچوڑ کر چہرے پر جمع کر دیا تھا۔
”تم لوگ سمجھتے کیوں نہیں کہ سرخ وائرس پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ اس کے خلاف اگر ہم سب اکٹھے ہو کر ایک صف میں کھڑے نہ ہوئے تو یہ سرخ وائرس ہماری نسلوں تک کو چاٹ جائے گا اور سرخیاں ہمارا مقدر بن جائیں گے۔ لاشیں ڈھونے کے لئے نہ ہمارے بازو رہیں گے اور نہ رونے کے لئے ہماری آنکھیں سلامت رہیں گی۔ ایک ہونے کے لئے ہمیں کوئی بڑے بڑے کارنامے انجام نہیں دینے بلکہ اپنے ذھن کی زمینوں پر سوچ کا صرف ایک پودا لگانا ہے اور وہ ہے قومی سوچ کا پودا ۔ ۔ ۔ جی ہاں صرف اور صرف اپنے ملک کی سوچ۔ ۔ ۔ باقی تمام انفرادی اور ذاتی سوچوں کی زھریلی جھاڑیاں اپنے اندر سے کاٹ کر پھینک دو ۔ ۔ ۔ یہ انفرادی سوچیں بہت خطرناک بیماریاں ہیں اور اسی وجہ سے ھمارے سماج کے گلے سڑے جسم میں سرخ وائرس پیدا ھو گیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اس پھیلتے ہوئے سرخ وائرس کو ختم کرنے کے لئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لو اور دنیا کو بتا دو کہ یہ سرخ وائرس ہماری پہچان نہیں ہے۔ میں تم لوگوں کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ خدا کے لئے متحد ہو جاﺅ ،صرف قومی سوچ ہی ہمیں اس سرخ وائرس سے نجات دلا سکتی ہے۔”
اس نے مائیک سے منہ ہٹاتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہا اور بھرے مجمع کو التجائی نظروں سے دیکھنے لگا۔ جوش کی وجہ سے اس کی آنکھیں لال ہو گئی تھیں اور ان میں پانی اتر آیا تھا۔
ہجوم میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ لوگوں کے چہروں پر مختلف عبارتیں تحریر ہونا شروع ہو گئیں اور آنکھوں میں شک کی بارشیں ہونے لگیں
”بکواس کرتا ہے سالا“ ایک غصے بھری آواز ابھری
”یہ آگ ان ہی لوگوں کی لگائی ہوئی ہے اور اب کتے کی طرح بھونک رہا ہے۔“ ایک اور آواز آئی
” یہ سب پیٹ کے چکر ہیں بھیا۔ ۔ ۔ بھاشن دو اور راشن لو“ ایک ہنستی ہوئی پتلی آواز کانوں میں گونجی
” یار۔ ۔ ۔یہ باتیں تو ٹھیک کر رہا ہے۔ قوم کو ایک ہونا ہی پڑے گا ورنہ یہ سرخ وائرس ہمارے آنگنوں تک پہنچ جائے گا۔“ ایک بھاری آواز نے سماعتوں پر دستک دی اور لوگ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔
”قوم کو تقسیم کر کے اب متحد ہونے کا راگ الاپنے آ گئے ہیں۔ جب گلی کوچوں میں یہ سرخ وائرس پھینکا جا رہا تھا تو اس وقت یہ الو کے پٹھے کیوں چین کی بانسری بجا رھے تھے۔ ۔ ۔ ؟“ ایک نفرت بھری تیکھی آواز ابھری
چہ میگوئیاں اور تیز ہو گئیں۔ اچانک مجمع پر سرخ وائرس نے حملہ کر دیا اور لوگوں کے جسم سرخ ہونا شروع ہو گئے۔ چاروں طرف چیخیں اڑنے لگیں۔ مجمع میں بھگدڑ مچ گئی اور وجود کٹتے ہوئے گرتے چلے گئے۔ پل بھر میں سرخ وائرس چہ میگوئیوں کو نگل کر سکوت کا وار کر چکا تھا۔ جو لوگ سانسوں کا بوجھ اٹھائے متحد ہونے سے انکار کر رہے تھے اب وہ سانسوں کے بوجھ سے آزاد ہو کر سرخ لباس پہنے ایک دوسرے پر گرے متحد ہو چکے تھے۔