”تم جیسےخود غرض انسان کے لب پروفا کا لفظ معنی کھو دیتا ہے۔تمہاری دوستی بہت مہنگی پڑی۔۔ میں تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتی۔ ۔ ۔ ۔ ”
جب تم الزاموں کی بوچھاڑ اور اپنا آخری فیصلہ سنا کر کمرے کا دروازہ زور سے بند کر کے جارہی تھیں۔ عین اسی لمحے کسی کا دلنوازپیغام میرے فون کی سکرین پرمجھے اعتبار بخش رہا تھا۔
”میں سمندر پار بیٹھی تمہاری وفاؤں کے موتی چن رہی ہوں ۔ میں نے محبت کا پہلا سبق تم ہی سے پڑھا تھا۔تمہیں نے مجھے بتایا تھا محبت ایثار ہے۔ محبت پانے کھونے کے جھنجھٹ سے بے نیاز،اپنی نفی کا نام ہے۔
میں رات کی فلائٹ سے واپس آرہی ہوں۔ جس کمرےکا دروازہ میں دوسال پہلے خود بند کر گئی تھی۔ میری آنکھیں اسی کی دہلیز پر پورے استغراق اور سپردگی کے ساتھ تمہیں دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔ تم ائرپورٹ پر مت آنا۔ ۔ ۔ ”