مختصر کہانی مختصر کہانی تقریب ۲۰۱۵

(Fifth Column) ففتھ کالم

رات کا پچھلا پہر تھا ۔ چاند کبھی کبھی بادلوں کی اوٹ سے سرسری سا جھانک لیا کرتا ۔ سردی کی شدت میں بتدریج اضافہ ہورہا تھا ۔ کیپٹل ہل کی براق پرشکوہ عمارت میں زبردست ہلچل مچی ہوئی تھی ۔ مجلس شروع ہوچکی تھی ۔ کالے سوٹوں میں ملبوس سیاہ سائے سرجوڑے ایک ناگہانی افتاد پر سوچ و بچار میں مشغول تھے . پس مردہ چہرے کسی حتمی نتیجے سے پہلے واقعہ بغاوت پر سیر حاصل گفتگو کو اس کے منطقی انجام تک لیجانا چاہ رہے تھے ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارا دیرینہ ساتھی جو گزشتہ نصف صدی سے ہمارے ساتھ رہا ہو ۔ اور ہمارے سیاہ سفید کارناموں میں اسکا بھی ہاتھ اور نام ہو جس نے کئی عالمی معرکوں میں ہمارا ساتھ دیا ہو وہ اپنی وفاداریاں یکسر ہم سے بدل لیگا ۔ کالے سوٹ میں ملبوس اکہرے بدن کے باون سالہ سیاہ رنگت اور گھنگھریالے بالوں کے حامل صدر مجلس نے استہزائیہ انداز میں مجلس کے شرکاؑ کی جانب اپنا منہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ اپنی چکنی چبڑی زبان میں پھر بھونکا “وہ تیزی سے اپنی وفاداریاں ہمارے ایک انتہائی زیرک دشمن کے ساتھ وابستہ کررہا ہے” ۔ اسکا جھکاو استعماریت کی تباہی ہے ۔ ہمیں پھر ایک بار سرد جنگ کا سامنہ ہے ۔ یہ صورتحال ہماری ساکھ، نام، اور کام کو بگاڑ کے رکھ دے گی ۔ اسی لمحے اس نے کڑوی کسیلی کافی کا ایک گھونٹ اپنے حلق سے نیچے اتارا ۔ اور شرکت داران پر نظریں دوڑانے لگا ۔
اگلے ہی لمحے ان غمگساران میں سے کچھ مفکرین جو کالے عینک لگائے پچھلی صفوں میں سر جوڑے بیٹھے تھے اچانک سامنے آگئے ۔ اور صدر مجلس کے سامنے کچھ تجاویز رکھتے ہوئے گویا ہوئے ۔۔
“تیزی سے بدلتے اس عالمی منظر نامے پر ہماری توجہ بدستور مرکوز ہے ۔ اگر فوری طور پر صورتحال میں بہتری نا لائ گئی تو ہماری عالمی اجارہ داری کو سخت دھچکہ لگ سکتا ہے” ۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے ہمیں کیا فوری تدابیر اختیار کرنی ہونگی سیاہ رنگت کے صدر نے مفکرین پر فوری سوال داغ ڈالا ۔
کالے عینک والے زرا سا کسمسائے جسے صدر مجلس نے فوری بھانپ لیا ۔” تخلیہ ” وہ زور سے چلایا ۔ کچھ دیر میں مفکرین اور صدر کے علاوہ مجلس میں اور کوئی نا تھا ۔
انھوں نے کھیسے میں سے ایک رنگین کاغز نکالا اور اس پر کچھ دائرے بنادئے ۔ نصف گھنٹے تک سرگوشیاں جاری رہیں ۔ کچھ دیر کے صلاح مشوروں کے بعد لائحہ عمل طے پاچکا تھا ۔ پانچویں ستون کو سیاہ حاشیہ دیکر رنگین کاغز میں لپیٹ دیا گیا تھا ۔
شب بیداری جاری تھی ۔ رات کا آخری پہر اپنے خاتمے کے انتہائی قریب تھا ۔ ۔ سحر کی خوشبو ہر سو پھیل رہی تھی ۔اس نے کھڑکی کے پردے کو کھسکا کر چمکتے ماہتاب پر نظر دوڑائی اور ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔۔۔۔
اگلی صبح پچاس سے زائد مقامات پر مجالس برپا تھی ۔

Leave a Comment