یہ جو پتھروں اور لکڑی پر کندہ کئے گئے خدا تھے… ان کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کافی تھے۔
تھور، لاٹ اور اوڈین۔ بہت ہی طاقت وار اور مہربان خدا تھے ،کچھ زیادہ نہیں مانگتے تھے ان سے ،بس ہر آزمائش کے موقع پر قربانی دینا پڑتی تھی ان کے نام کی، سفر کا اردہ ہو، نئی فصل کی کٹائی ہو، شادی، موت اور جنگ و جدل ،صرف لہو رنگ ہی ان کو راضی کر سکتا تھا۔
ہاں ہر دس سال بعد ان کو انسانی خون بھی چاہیئے ہوتا تھا، اب یہ کس کا فیصلہ تھا، بڑے پروہت، یا خدا کا، کسی کو نہیں معلوم، صرف یہ ہوتا تھا کہ ہر دس سال بعد ان کے قبیلے کے چند جری اس دان پر راضی ہو جاتے ،اپنی قسمت پر فخر کرتے اور باقی انسانوں کو بچانے کے لئے اپنے آپ کو وار دیتے۔
مگر جب سے وہ اپنے علاقے سے بہت دور، اس لال مٹی والی زمین پر آیا تو بہت حیران تھا، یہاں کا قانون اور اصول اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ اس نے کئی بار ان لوگوں کے بڑے پروہت سے پوچھا تھا کہ ایسا کیوں ہے ،یہاں ہر روز دس سے پندرہ لوگوں کی قربانی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے .کیا ان کا خدا ان سے بہت ناراض ہے؟ .لیکن وہ ہر بار یہ ہی جواب دیتا کہ ‘خدا کی مرضی’ اتنا زیادہ خونی دان تو کبھی ان کے خداؤں نے بھی نہیں مانگا تھا جبکہ وہ ایک نہیں تین تھے ۔
وہ اس لال مٹی والوں کے خدا کی جھلک دیکھنا چاہتا تھا، بس ایک بار دیکھ لے کہ آخر اسکے خداوں میں اور ان کے خدا میں کیا فرق ہے؟ وہ اس کے خداوں سے زیادہ غضب ناک کس لیے تھا؟ وہ اتنا ناراض کس وجہ سے تھا؟ اتنے لوگوں کی بلی بھی اس کے غصب کی آگ کوٹھنڈا کرنے کے لئے نا کافی کیوں تھی؟
ایسے ہی انگنت سوال اسکے سر کے بالوں کی طرح بکھرے بکھرے رہتے۔ وہ بال کھجاتا انہیں ادھر ادھر کر کے جواب کی جگہ بناتا مگرجواب اس کی گرفت سے پھسل جاتے۔ وہ ناکام رہتا۔
آج بڑی قربانی تھی… مگر ذبحہ ہونے والے نوخیز تھے… معصوم اور لاتعداد… لال مٹی مزید گہری ہو چکی تھی .. خون بے نشان تھا… رس رس کر مٹی میں گم تھا…
بے چین ہو کر سب کو روک روک کر پوچھنے لگا… یہ کیوں ہوا ؟؟ یہ اتنا بڑا دان کس لیے…؟ آج تمہارا خدا ایسا غضب ناک کس لئے ہے ؟؟ جواب ایک ہی تھا..!
“خدا کی مرضی”
دکھتے بدن کو لے کر وہ رات گئے گھر لوٹا تو بہت دیر سونے کی کوشش کرتا رہا پھر اسی بے کلی میں اٹھ کر اپنے تینوں خداؤں کے سامنے دو زانو ہوا تو دل سے ایک ہی التجا آنکھوں سے پانی کا روپ دھار کر بہنے لگی:
“اے خدا وندا…. ان لال مٹی والوں کا خدا ان سے راضی ہو جائے”