“اُس پاگل نے ایک دن بُتوں کی دوکان میں گھس کر سب بھگوان توڑ دیئے۔۔۔ بازار میں کھڑے کئی تماشائی اُس روز خوب ہنسے تھےلیکن پھر اگلے دن ان سب تماشائیوں نے ہی اس پاگل کو قتل کر دیا۔”
“مگر کیوں۔۔۔؟”
“کیونکہ اس مرتبہ اُس نے اپنے کھیلنے کے لیے تماشائیوں کی مقدس کتاب کے صفحے پھاڑ کر چھوٹی چھوٹی کشتیاں اور جہاز بنائے تھے۔”
“اور پھر؟”
“اور پھر کیا۔۔۔ پھر اس پاگل کی لاش کو آگ کے ایک بڑے الاومیں جھونک دیا گیا۔۔۔ اُسکی ہڈیاں اور گوشت راکھ میں تبدیل ہوگئے۔۔۔ اس راکھ پر رنگ رنگ کے موسم گزرے۔۔۔ آخر ایک مون سون نے جی بھر کر پانی پلایا تو کئی ننھی ننھی کھمبیاں اور ہری سی گھاس اُگی۔۔۔ یہی کھمبیاں اور گھاس اگلے موسم میں سڑنے لگے۔۔۔ کھڑے پانی پر سبز کائی جمنے لگی۔۔۔
اِس کائی زدہ پانی ، سڑی گھاس اور کھمبیوں نے مل کر کچھ لاروے پیدا کیے جو پیوپا بنے اور پھر۔۔۔ مچھر۔۔۔ ان مچھروں نے اور مچھروں کو جنم دیا۔۔۔وہ مچھر سب تماشائیوں کی ناک میں سے ہوتے ہوئے دماغوں میں گھس گئے۔۔۔”
“اور۔۔۔ پھر کیا ہوا۔۔۔؟”
“اب وہ سب تماشائی ۔۔۔
سحر تا رات۔۔۔ رات تا سحر۔۔۔
اپنے سروں کو دیواروں سے ٹکراتے ہیں، ماتھا زمین پر پٹختے ہیں۔۔۔
چیختے ہیں، چلاتے ہیں۔۔۔ چنگاڑتے ہیں۔۔۔
سر کھجاتے ہیں۔۔۔ اس پر ضربیں لگاتے ہیں۔۔۔
مگر بے سود ہے۔۔۔ سب بے سود ہے۔۔۔ “