“ارے کہاں مرگئیں سب کی سب “دادی اماں کی دھاڑ گونجی وہ ڈرتی کانپتی اندر کی طرف دوڑیں… “،جی دادی اماں “وہ چاروں بیک وقت ہکلایئں
“ارے چاروں کو بیک وقت ٹھٹا سوجھتا ہے…. یہ کام کون نپٹائےگا…… سینے کا سل بن کر بیٹھی ہیں….. کؤن بیائےگا تمہین نہ صورت نہ شکل نہ عقل نہ کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی….. چلو جلدی سمیٹو…. کوئی آرہا ہے دیکھنے….. ایک سل تو سرک جائے”,,,
دادی اماں کی بڑبڑاہٹ جاری تھی اور وہ دالان سمیٹنے کچن سمیٹنے میں لگ گیئں
اماں انکو دیکھ کر کڑھتی رہیں….. چاروں کی چاروں لڑکیاں سانولی سلونی یونہی سی شکل والی….. غریب ڈراییور کے گھر جنمی…. اوپر تلے کی چار ہر سال ایک…. بیٹے کی توقع میں چار ہوگئیں …..
وہی شام تھی وہی رد کر دیئے جانے کا دکھ تھا اور موت کا سا سناٹا….. دادی اماں کا کوسنا پھر شروع ہوا…. “اللہ غریب کے گھر بیٹی نہ دے… لوگوں کو بس گوری چمڑی اور پیسہ اور جہیز چاہئیے انسان کس کو چاہئیے…. یہ انسان نہین ہیں ؟ لاشیں ہین لاشیں…. انہین کوں اٹھائے
گھر میں کہرام مچا تھا غفورا ریلوے ایکسیڈنٹ میں لوگوں کی جان بچاتے وقت مارا گیا… اسکا انجن پٹریوں سے نیچے اتر گیا تھا مگر ریل ثابت تھی جانی نقصان کم تھا ڈرایئور دونوں مارے گئےتھے…. اسکی ادھ جلی لاش ایسے تیسے تدفین کی گئی
وہ شام بہت سرد اور خنک تھی جب اسے سرکار کی جانب سے بہادری انعام اور پیسے دینے بلایا گیاتھا…. سفید ساڑھی میں ملبوس سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں پانچ لاکھ کا چیک لیتے ہوئے اسے لگا جیسے شوہر کی لاش کے ٹکڑے سمیٹ رہی ہو!!!! پھر اچانک درد کی ایک تیز لہر اسکے دل کو چیر گئی کیا پانچ لاکھ کی رقم چار لاشوں کو اٹھانے کے لیے کافی ہوگی جو انکا باپ لاش بن کر انکے حوالے کر گیا تھا………..