سردی کا موسم اور چھٹی کا دن – ناشتہ دیر سے کیا، باہر جانے کا دل نہیں چاہا تو سب کے ساتھ میں بھی کمبل میں بیٹھ گیا. بیٹی آئی ہوئی تھی اور اسکے دونوں بچے بھی ساتھ تھے. بیٹی کی وجہ کر اس کی دو تین کزن بھی گھر پر تھیں سردی سب کا حال پوچھ رہی تھی. اول تو کراچی میں سردی پڑتی نہیں اور جب پڑتی ہے تو سب کو سوئٹر،کمبل اور لحاف کی یاد آجاتی ہے۔ دراصل سائبیریا کی ٹھنڈی ہوا ، کوئٹہ کے راستہ کراچی میں داخل ہو تی ہے تو ہاہا کار مچ جاتی ہے. گرم کپڑے خال خال اور ہیٹر کا تو تصور ہی نہیں. کمبل میں گھسے باتیں ہورہی تھیں کہ باہر سے آواز آئی ، بادام ، کشمش اور گرم گرم مونگ پھلی – یہ سن کر سب نے میری طرف دیکھا مگر میں ایان سے باتیں کر نے لگا. کیسے ہو دودھ پی لیا اور ناشتہ میں کیا کھاتے ہو. اتنے میں بیٹی نے کہا. پاپا مونگ پھلی لائیں، ماں کی بات سنکر بچے مونگ پھلی کہنے لگے. میں نے سنی ان سنی کردی تو چھوٹا زیان کہنے لگا . نانی . بیٹا تمہاری نانی کے دانت میں درد ہے وہ نہیں کھائیں گی . لیکن اس نے مسکراتے ہوۓ زور سے کہا ‘ نانی ‘ . بیٹی نے بتایا وہ دھمکی دے رہا ہے اگر آپ نہیں لائے تو نانی کو بتا دے گا. مجھے کئی دفعہ امی سے ڈانٹ پڑ چکی ہے ۔ ننھے بلیک میلر نے مجھے اٹھا دیا۔
گھر سےنزدیک نکڑ پہ ریڑھی والا کھڑا تھا. بادام ، کشمش ، بھنے چنے اور مونگ پھلی لیکر میں واپس ہوا. مونگ پھلی چونکہ مقدار میں زیادہ تھی اس لئے اسے ایک تھال میں ڈال دیا لفافہ پھنکنے ہی والا تھا کہ اس پر لکھی تحریر پر نظر پڑی. کچھ شاعری تھی اور ہاتھ سے لکھی ہوئی لہذا میں نے اسے احتیاط سے کھولا اوہ یہ تو کسی کی ڈائری لگتی ہے . بچوں کو ساری چیزیں دیکر خالی لفافہ لیکر میں ڈرائنگ روم میں آگیا. بیوی سے ایک عدد ادرک والی چائے کی فرمائش کی تا کہ سردی کا زور ٹوٹے اور لفافہ کو اچھی طرح سے کھول لیا. یہ ڈائری کے دو صفحات تھے. خوشی ہوئی کے لوگ ڈائری لکھتے ہیں- اپنی تو کوئی ڈائری نہیں اور بیوی کی ڈائری میں ٹی وی سے اتارے عملیات ، کھانسی بخار کے ٹوٹکے ، بریانی نہاری بنانے کہ نسخے یا مہینہ بھر کے راشن کی لسٹ . اب میں ڈائری پڑھنے لگا۔
شروع ہی ایک شعر سے ہوا۔
رات اس سے خواب میں باتیں ہوئیں – شام تک قائم رہا اس کا نشہ
8 January
آج کل کسی کام میں دل نہیں لگ رہا ہے. کسی نے کیا خوب کہا ہے ” دل کیا اداس ہے کے زمانہ اداس ہے ” یہاں میرے علاوہ سب خوش ہیں.میڈیکل کالج میں، میں ہوں اور میری آنکھوں سے جھانکتی اداسی. جس کی وجہ کر آنکھوں میں چمک آجاتی ہے وہ کسی اور سے ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہے اوراپنا دل جل کر کوئلہ ہو جاتا ہے. اس بیدرد دنیا میں سب خوش ہیں. درد دل کو دور کرنے کے لئے ایک فیک آئ ڈی بنا کر رقیبوں کو للکارنے کی سوچ رہا تھا کہ فیس بک میں ایک پوسٹ دیکھی ” کسی کے جلنے پہ آپ کو ہنسی آتی ھے آپ محظوظ ہوتے ھیں یا آپ کو غصہ آتا ہے تکلیف پہنچتی ہے ” کوئی پوچھے بھئی آپ کون خدائی فوجدار، کیوں کسی کی جان جلاتے ہو. ڈاکٹری کا آخری سال چل رہا ہے اور ملائکہ ہم سب کو کلاس میں لیڈ کر رہی ہے۔ اپنے دل کا حال اسے کیسے کہوں. ایک ہمدرد آصف ہے، میں پڑھنے میں اسکی مدد کرتا ہوں اور وہ مجھے مختلف قسم کے گر سکھاتا ہے کہ ملائکہ سے کس طرح بات کرنی ہے. کیسے کپڑے پہن کر کون سا پوز مارنا ہے ، خط میں کیا لکھنا ہے اوریہ کے اس کے بیگ میں خط وہ خود رکھ دے گا. لیکن پہلے خط سے ہی مجھے پتہ چل گیا کہ یہ شخص ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا ہے اور پتہ نہیں لگنے دیتا کہ کس پچ پر کھیل رہا ہے ۔ انورجو ملائکہ سے عشق کا دعویدار ہے خط اس کے ہاتھ لگ گیا اور سب کے سامنے اس نے پڑھنا شروع کردیا. اف یہ بے عزتی ، لڑکے لڑکیاں سب مجھے دیکھکر ہنس رہے تھے ۔
13 January
وہ جو کہتے ہیں سو دن چور کا ایک دن کوتوال کا، نہیں یہ محاورہ یہاں فٹ نہیں، بلکہ یہ کہ خزاں کے بعد بہار کی آمد . آج خوشگوار دن کا آغاز تھا ملائکہ خود ہی میرے پاس آئ اور کچھ طبی گفتگو کے بعد اس نے نوٹس مانگے اور آیندہ اتوار کو اپنے گھر آنے کو کہا شائد کوئی تقریب ہے.تھوڑی دیر کے بعد ہم سب ایک میز کے گرد اکھٹے کھڑے تھے اور پروفیسر صاحب لیکچر دے رہے تھے کہ اچانک ملائکہ کو ٹیشو پیپر کی ضرورت ہوئی تو انور نے مجھے کہا کے اس کے تھیلے سے ٹیشو نکال لوں- میں نے تھیلے میں ہاتھ ڈالی تو کوئی چیز میرے پنجہ پر چڑھ گئی جب میں نے ہاتھ باہر نکالا تو ایک چھپکلی ہاتھ پر موجود تھی . پروفیسر سمیت سب نے قہقہہ لگایا . واہ . آج تو چھپکلی کا آپریشن ہوگا سب ملی بھگت تھی اور میں دانت پیس کر رہ گیا. گھر دیر سے آیا تو پتہ چلا آصف میری غیر موجودگی میں آیا تھا اور ملائکہ والی بات سب کو بتا دی ساتھ ہی کہا کے پڑھنے میں دل نہیں لگا رہا ہوں. سخت شرمندگی ہوئی لیکن عشق کا بھوت
کب سنتا ہے ۔
6 January
صدر میں سونٹھ کا پانی پتے ہوۓ میں سوچ رہا تھا کہ کیسے بدلہ لیا جائے، یکایک مینڈک کا اچھلنا یاد آیا یہ سانپ سے بہتر تھا کہ اس میں کوئی خطرے والی بات نہیں تھی . گھر سے کچھ فاصلہ پر ایک چھوٹا تالاب ہے اس کے ساتھ ہی ایک باغبان نے پودے ، کیاری گملے میں لگا کر بیچنے کے لئےرکھے تھے.چھپکلی والے واقعہ کہ دو دن بعد میں وہاں چلا گیا اور باغبان سے پوچھا کے یہاں مینڈک مل جاتا ہے. اس نے تالاب کے پاس سے ایک چھوٹا مینڈک پکڑ کر مجھے دے دیا جو میں نے ایک کاغذ کے لفافہ میں رکھ لیا اور اسے بیس روپے دے دئیے. اگلے دن میں نے، سب کی آنکھ بچا کر، مینڈک کو انور کی بیگ میں ڈال دیا اور ان لوگوں سے دور دور رہا تا کہ مجھ پر شک نہ ہو. ٹفن کے وقت حسب معمول سب میز کے گرد بیٹھ گئے اور بیگ سے کھانا نکالنے لگے. انور نے بیگ میں ہاتھ ڈالا اور ایک چیخ مار کر باتھ باہر نکالا. اس نے مٹھی کھولی تو مینڈک اچھل کر ملائکہ کی پلیٹ میں گر گیا وہاں سے اچھلا تو نوشی کے اوپر، وہ چیخ مار کر اچھلی تومینڈک نیچے فرش پر. افراتفری مچ گئی لڑکیاں چیختی ہوئی بھاگیں. میز الٹ گئی. وہ رہا مینڈک، ابھی یہیں تھا کہاں گیا. اف کیا سین تھا دل کوکیسا سکون ملا ۔
23 January
پریکٹیکل کی وجہ کر کالج میں جلد ہی چھٹی ہوگئی. گھر پہنچا تو والد صاحب مجھے لیکرمحلہ میں موجود اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس چھوڑ گئے. انہوں نے تعلیم کا پوچھتے ہوۓ سوال کیا کہ شادی کا کیا مقصد ہوتا ہے۔
سر آپ خود بتائیں ، آپ نے تو تین شادیاں کی ہیں – میں نے کہا ۔
یہ سنکر وہ تھوڑی دیر چپ رہے پھر کہا میرا مطلب یہ ہے کے اگر ایک ڈاکٹر کسی لیڈی ڈاکٹر سے شادی کرے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔
سر. میں کیا کہوں آپ مجھے گائیڈ کریں۔
دیکھو ایک انسان کی خواہش ہوتی ہے کے جب وہ کام کر کے گھر واپس اے تو کوئی اسے مسکرا کر ویل کم کرے. چائے ناشتہ مل کر کریں. گپ شپ ہو. بچے ہوں تو انکی دیکھ بھال خود کرے. اب لیڈی ڈاکٹر ہوئی تو کبھی وہ کلینک میں کبھی تم. ایمرجنسی میں باہر. میل ملاقات کبھی کبھی. بچہ دیر سے اور اسکی دیکھ بھال ماسی کے حوالے. کھانا ، کپڑے سب کام ماسی. سوچو اپنے گھر کی سہولت دیکھو.۔
کہتے تو سر آپ ٹھیک ہیں۔
اچھا یہ بتاؤ وہ لڑکی جو تمھارے ساتھ ڈاکٹری کر رہی ہے. کیا وہ تمھارے سٹیٹس کی ہے. وہ تمھارے ساتھ رہے گی یا تم اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر اس کے گھر جا بسو گے. تم اس سے شادی کرنے سے متعلق دس بیس پوائنٹ پروز اینڈ کونز( فائدے اور نقصانات ) لکھو پھر سوچو کیا کرنا ہے ۔
رات کھانے سے فارغ ہو کر پوائنٹ لکھنے بیٹھا تو جلد ہی آنکھ کھل گئی. محبت ایک لطیف جذبہ ہے لیکن کامیاب اسی وقت ہے جب وہ دونوں طرف ہو. یہاں میں ایک کونے میں تھا اور ملائکہ دوسرے کونے میں، پھر وہ خود انور میں دلچسپی رکھتی ہے. گھر کا ماحول الگ ، وہ امیر بنگلہ گاڑی کی عادی اور میں ایک مڈل کلاس. اگر کسی وجہ کر شادی ہو بھی جائے تو کامیاب نہیں ہوگا. اپنے اسپتال کے ڈاکٹر مسعود یاد آگۓ، انکی بیوی بھی ڈاکٹر تھیں دونوں الگ الگ کلنک میں اورآخر میں وہ اکیلے زندگی گزار رہے ہیں. ڈاکٹر کو ایک عام لڑکی سے شادی کرنی چاہئے جیسے محلہ کی نائیلہ یا عرشی جنھیں میں اکثر دیکھتا ہوں اور یہ گھر بھی آتی ہیں. سوری یہ میں کیا لکھ رہا ہوں۔
26 January
سہ پہر کو ملائکہ کے گھر جانا تھا اس کے گھر قرآن خوانی تھی. تیار ہوکر چلا ہی تھا کہ دروازہ پر نائیلہ سے ٹکر ہوگئی. عشق میں لوگ اندھے ہو جاتے ہیں یہ کہکر وہ بہن کے کمرے کی طرف بھاگ گئی اور میرا غصہ ہوا ہو گیا. میرے خدا اسے بھی پتہ ہے، ضرور بہن نے بتایا ہوگا. ملائکہ کے گھر کالج کے بہت سے دوست آئے ہوۓ تھے اور ملائکہ انھیں چائے بسکٹ اور میٹھائی پیش کر رہی تھی. میں بھی ان میں شامل ہوگیا. انور نے خاص طور پر مجھے مخاطب کر کے کہا کہ کل وہ اور ملائکہ فلم دیکھنے گئے تھے. میں مسکرایا اور فلم کی بات کرتا رہا اور اس سے پوچھا کہ تم دونوں اسپیشلائز کرو گے یا ہاوس جاب . وہ سب حیران تھے کے مجھے کیا ہوا ہے اور میں دل ہی دل میں ہنس رہا تھا کیونکہ عشق کا بھوت کافور ہوچکا تھا۔
28 January
ہیڈ ماسٹر صاحب سے راستہ میں ملاقات ہوگئی. حال دریافت کیا تو میں نے کہا کہ آپ کی بات درست تھی. اب میں نارمل ہوں اورپڑھنے میں مشغول ہوں. یہ سنکر وہ بہت خوش ہوۓ. صبح سویرے اٹھنے اور تھوڑی بہت ورزش کا مشورہ دیا اور دعا دیکر رخصت ہوۓ. کالج سے آتے ہوۓ دروازہ پر ایک بار پھر نائیلہ سے ٹکر ہوگئی اب میں نے اسے غور سے دیکھا وہ شرمائی میں نے سر پکڑ لیا اور
…….
یہاں پہنچ کر صفحہ ختم ہوگیا. آگے پیچھے دائیں بائیں، مزید کچھ نہیں تھا. کچھ پتہ نہیں چلا کیا ہوا. کہانی کہاں ختم ہوئی. نہ کوئی نام کہ کس نے لکھا- خیر اب کیا ہو. ویسے کسی دوسرے کی ڈائری پڑھ کر مزہ آیا ۔