ڈائری کا ایک ورق

میری ڈائری کا ایک ورق ۔۔۔۔۔۔ شاکرہ آپا :تحریر سید صداقت حسین

میں نے جب اپنے آبائی گھر میں شعور کی آنکھ کھولی تو جہاں مجھے میرے بڑے بہن بھائی ماں باپ نظر آئے وہیں دو بڑی بڑی سیاہ آنکھوں، گوری رنگت اور فربہ جسم کی مالک میری پھپھی زاد بہن شاکرہ بھی وقتا فوقتا نظر آئیں ۔ پھپھی جان کبھی کبھی دادی سے ملنے ہمارے گھر آیا کرتی تھیں تو ہماری پھپھی زاد بہن جو عمر میں مجھے سے دس یا پندرہ سال بڑی تھیں وہ بھی نانی سے ملنے بڑے تپاک سے ہمارے گھر آتی تھیں ۔
شاکرہ آپ کے اندر ایک خوبصورت آرٹسٹ موجود تھا جو چھوٹے بچوں کی نفسیات کو بہت جلدی جانچ کر انکو بہت عمدگی سے ٹریٹ کرتا۔ رفتہ رفتہ وہ ہماری توجہ کا مرکز بنگئیں اورہماری زندگی میں ایک ایسے رہنما انسان کے طور پر سامنے آئیں جس کے افکار، اور شعار نے ہماری زندگیوں کو تبدیل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ۔ خاندان کے تمام بچے انکی بہت عزت کرتے تھے ۔ زندگی کے گداز سفر پر ہمارا بچپنا لڑکپن میں بدلہ مگر شاکرہ آپا کی انسیت، محبت اور اعانت کسی طرح بھی کم نا ہوئی ۔ وہ محبت کا پیکر تھیں جن میں سے ہر دم مشک پھوٹتی رہتی تھی ۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کے پھپھی جان دادی جان سے ملنے تو آتیں تھیں مگر شاکرہ آپا کا آنا بند ہوگیا ۔ انکی زندگی نے ایک خطرہ چن لیا تھا جو ہر وقت ان کے گرد منڈلاتا رہتا تھا ۔ انکی فکریات اور مستقبل کی آسودہ زندگی کی تشکیلات اداس اور زخمی پرندہ کی طرح زندگی کی لاحاصل رونقوں کی نظر ہوگئیں وہ ایک سفاک بیمای میں مبتلا تھیں جس نے انکے حسن کو کملا دیا تھا ۔ زندگی کے اس جبر کو انھوں نے بیس سال تک بڑی بہادری کے ساتھ برداشت کیا ۔
۲۰۱۵کے جون کا تیسرا عشرہ کراچی کے لیئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا ۔ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی موسم کے تیور خطرناک حد تک بگڑچکے تھے ۔ درجہ حرارت پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے کراس کرچکا تھا ہر طرف قیامت کے آثار نمودار ہونے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانچ ہزار سے زائد افراد شدید لو گرمی ہسپتالوں میں طبی امداد نا ملنے کے باعث موت کا شکار ہوچکے تھے ۔ شاکرہ آپا جو طویل بیماری سے زندگی کی جنگ لڑرہی تھیں بہت کمزور اور نحیف ہوچکی تھیں ۔ موسم کی اس ناگہانی افتاد پر انکی سانسیں اکھڑنے لگیں انھیں بمشکل ابتدائی طبی امداد دی گئی مگر وہ تین سے چارگھنٹوں میں موت سے لڑتے ہوئے زندگی کی جنگ ہار گئیں ۔
انکی رحلت کے بعد خاندان کے ایک روشن چراغ کا باب ختم ہوگیا ۔ مون سون کی حسرت ۔ کوئل کی کوک ۔ بارش کی خوشبو اور آواز ۔اپنے شہر میں شام کے وقت چلنے والی نسیم سحر کے ادھورے خواب شاکرہ آپا اپنی آنکھوں میں سجائے ایک نئے سفر پر نکل گئیں ۔
وہ کمزور دل کلاس کے لوگوں کے لیئے رول ماڈل تھی ۔ خوف سے لڑنے والی عورت جو زندگی کے منتظر لمحوں میں بیماری اور موت کی کشمکش میں بھی مسکراتی تھی ۔ انکے چہرے پر ہمیشہ ایک خوبصورت مسکراہٹ جگماتی رہتی تھی جس نے کبھی بھی انکے اندر کی اذیت کو عیاں نہیں ہونے دیا ۔
ہم آج بھی انکے عکس اپنے گھر کے درو دیوار پر ،آنگن میں ، چمکتے برتنوں میں دروازوں کی کنڈیوں میں گیلری میں مہکتے پھولوں میں مہارت سے کڑھے ہوئے کرتوں میں دیکھتے ہیں مگر اب شائد وہ نا آئیں گی اور ہم منتظر آنکھوں سے زندگی کے گداز لمحوں میں غم کو بچھائے انکا انتظار کرتے رہینگے ۔ہم تو اب بڑے ہوگئے مگر جو چھوٹے بچے انکے دست شفقت میں تھے وہ راتوں کو اپنی ماوں سے کہانیاں سنتے وقت کہتے ہیں کہ مرنے والے کہاں چلے جاتے ہیں ۔ ستاروں کی کہکشاوں میں گہرے تاریک آسمانوں کی وسعتوں میں سمندر کی نظر نا آنے والی سطح میں ۔۔ یا پہاڑوں کی ان چوٹیوں میں جہاں کائنات کی خاموشی بسیرا کرتی ہے ۔
یا ان ریگزاروں میں جہاں انسانی قدم کے نشان نا ہوں ۔ جہاں گوگل کی پہنچ نا ہو ۔ یا اس چاند سے پرے بھی ایک چاند ہے سات رنگوں سے سجا ہوا چاند ۔ کیا آسمان کی پراسرار دنیا میں بھی ایک سمندر ہے جسکا ایک کنارہ ہے جہاں ناریل کے درخت خوشبو بھری ہواوں میں لہراتےہیں جہاں بپھرتے سمندر کی لہریں گیت گاتی ہیں ۔ جہاں نا رات ڈھلتی ہے نا شام ڈھلتی ہے بس ایک سلونی سی شام چاند کی چاندنی میں اپنےماتھے پر بندیا سجا کر رقص کرتی ہے ۔ جہاں کوئی دہشت نہیں جہاں کوئی وحشت نہیں جہاں صرف محبت ہے ۔ اب شاکرہ آپا وہاں رہتی ہیں جہاں آشیانوں سے اڑنے والی چڑیائں پیاس، گرمی لو تپش بیماری خوف اور جبر سے مرنے کے بجائے چہچہاتی رہتی ہیں اور امن محبت انسانیت کے گیت گاتی رہتی ہیں ۔
دہشت کے خوف میں لپٹا خاموش کراچی جو ملک کی معیشت کی ریڈھ کی ہڈی ہے وہاں معصوم زندگیاں موت کی مفرور ملازمہ ہیں ۔ ہم اپنی بہن کے ساتھ ساتھ بیشمار انسانی جانیں جو اس شہر میں طبی سہولتیں میسر نا ہونے ۔ سرد خانوں میں جگہ نا ہونے قبرستانوں میں جگہ نا ہونے کے باعث موت کی آغوش میں جاچکے ہیں سب کو بہت جلد فراموش کردینگے ۔ کیوں کہ ہم بے حس ہوچکے ہیں ۔ شاکرہ آپا مجسم محبت جو آرٹ کلچر زبان تہذیب کی استانی بنکر انسانیت کا بھولا بسرا سبق یاد دلایا کرتی تھیں ہم سب کو جو بس اب آبدیدہ ہیں ۔میں خاموشی کے سناٹے میں ہوا کی سرسراہٹ پر دروازہ کی آوازوں پر کان دھرتا ہوں مگر سنگدل ہوائیں وہ دستک نہیں دیتیں جنکی دھن کو میں پہچان لیتا تھا ۔
وہ ایک صبح کا خواب تھی ۔ جو افلاس دکھ اور غم کی تاریک ہواوں سے لڑنے والی مشعل کی طرح تھی ۔ ہم نے ایک آسیب زدہ شہر میں ایک مشعل کو دفن کیا ہے اس امید کے ساتھ کے یہ مشعل ہماری نمناک آنکھوں میں جلتی رہے گی ۔ اور ہمیں محبت کا درس دیتی رہے گی ۔