ڈائری کا ایک ورق

ٹیپو سلطان تحریر باصر سلطان کاظمی

مجھے سیاست کا پہلا سبق پہلی جماعت ہی میں مل گیا۔ ایک کہانی میں ایک بچی میری (Mary) دریا کے کنارے کھیلتے ہوئے پھسل کر پانی میں جا گری۔ وہ ڈوب رہی تھی کہ سکول ماسٹر کے کتے، سلطان ،نے دریا میں کود کر اُسے بچا لیا۔(Sultan, the school master’s dog, jumped into the river and —–)۔ کمرہء جماعت میں دبی دبی آوازیں ابھریں: Sultan, the school master’s dog۔ پھر کھانے کے وقفے میں یہ آوازیں سکول کی گراونڈ میں بھی گونجتی سنائیں دیں۔ مجھے بہت شرم محسوس ہو تی رہی۔ وفادار تو کئی جانور ہوتے ہیں لیکن عزتِ سادات صرف گھوڑے کو نصیب ہوئی۔ گھر آکر میں نے باجی (ہم اپنی والدہ کو باجی کہتے تھے) سے پوچھا کہ میرا نام سلطان کیوں رکھا گیاتھا۔ انہوں نے بتایا کہ سلطان کا مطلب بادشاہ ہوتا ہے اور میرے دادا کا نام بھی سلطان تھا۔ انگریزی کی کتاب انگلستان میں چھپی تھی اور انگریز ٹیپو سلطان سے دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کے نام اس کے نام پہ رکھنے لگے تھے۔
’’یہ ٹیپو کون تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ ہندوستان کے ایک حصے کا بادشاہ تھا جو ساری عمر انگریزوں کے خلاف لڑتا رہا اور آخر ایک لڑائی میں شہید ہو گیا۔ جب بڑی کلاسوں میں جاؤ گے تو اس بارے میں بہت کچھ پڑھو گے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’یہ انگریز کون تھے؟‘‘
’’سات سمندر پار رہنے والی ایک قوم۔‘‘
’’وہ اتنی دور سے لڑنے آئے تھے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’وہ ہندوستان پہ قبضہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’انہوں نے قبضہ کر لیا۔‘‘
’’پاکستان پر بھی؟‘‘
پاکستان اُس وقت ہندوستان ہی کا حصہ تھا۔‘‘
’’انگریز ہمارے بھی دشمن تھے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’پھرہم اُن کی کتابیں کیوں پڑھتے ہیں؟‘‘
اب وہ ہمارے دشمن نہیں ہیں۔‘‘
’’اِس کا مطلب ہے کہ اب جو انگریز ہیں وہ برے نہیں ہیں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر وہ اپنے کتوں کے نام سلطان کیوں رکھتے ہیں؟‘‘
باجی ہنس پڑیں۔