نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

چیونٹیاں ،،،،،،،،،،،،،غنی پہوال

میں جب بھی کوئی خواب دیکھتا ہوں
تو صبح وہ میری دائیں آنکھ سے
کالا کیکڑا بن کرباہرنکل جاتا ہے
میرے گھر کی دیوا ریں او ردیگر اشیا
اب ان سے مانوس ہوچکی ہیں
شمسہ کو اگرکیکڑوں سے الرجی نہیں ہوتی
تو شایداب تک ہم شادی کرچکے ہوتے
آج شام حسبِ عادت
میں کیکڑوں سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا
تو دیوار پر لگی بل گیٹس کی تصویر کے ہونٹوں پر
طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی
تو میں نے خفگی چھپانے کیلئے
فورا نظریں تصویر سے پھیر کر
ٹی وی کی طرف کر لیں
اور صوفے پر بیٹھ گیا
اسکرین پر کوکر بنانے والی ایک کمپنی کا
نیااور متاثر کن اشتہار چل رہاتھا
میں جیسے ہی اشتہار دیکھنے میں مگن ہوا
اشتہار سے ایک چیونٹی برآمد ہوئی
اوراسکرین سے باہر آن کودی
پھر اچانک وہ خود بخود بکری جتنی بڑی ہوگئی
اور کسی روبوٹ کی طرح چل کر
میرے پُرانے ماڈل کے کوکر کو منہ میں دبا کر باہر نکل گئی
میں ابھی سنبھلا نہیں تھا کہ
واشینگ مشین بنانے والوں کے اشتہار سے
ایک اور چیونٹی برآمد ہوئی جس کی جسامت بھینسے جتنی تھی
سب کیکڑے خوف زدہ ہوکر
میرے اوپر چڑھ کر میرے جسم سے چمٹ گئے
میں کیکڑوں کو سنبھالنے میں لگا تھا
کہ فریج بنانے والوں کے اشتہار سے بھی
ایک دیو قامت چیونٹی نمودار ہوئی
میرے پسینے چھوٹنے لگے
میں شمسہ کو پکارنا چاہ رہا تھا
مگر میری گویائی جواب دے گئی تھی
ڈر کے مارے میں نے آنکھیں میچ لیں
اور جب کھولیں تووہ چیونٹی فریج لے جا چکی تھی
میں نے پھرتی سے ٹی وی بند کردیا
تھوڑی دیر بعد کیکڑے بھی رینگتے ہوئے نیچے اُتر گئے
ایک لمبا سانس لیتے ہوئے
میں نے پسینہ پونچھا
اور ٹیبل پر پڑا اخبار اُٹھا کر دیکھنے لگا
اخبار میں چھپے نئے فیشن کے ملبوسات والوں کے اشتہار سے
ہزاروں چھوٹی چیونٹیاں نکل کر ٹڈی دل کی طرح مجھ سے چمٹ گئیں
میں بے حس و حرکت پڑا دیکھتا رہا
تھوڑی دیر بعد چیونٹیاں مرے جسم سے الگ ہوکر
بڑی تیزی سے باہر نکل گئیں
میں حواس باختہ ہوکر بھاگتا ہوا دروازے پہ گیا
پورا شہر اور شاہراہیں مختلف اقسام اور جسامت کی
چیونٹیوں سے بھری پڑیں تھیں
اور ہر چیونٹی کے منہ میں کوئی نہ کوئی چیز ضرور تھی
جنہیں وہ اپنے بلوں میں لے جارہی تھیں
اور شہر کے سارے لوگ برہنہ
گھروں کے دروازوں پر کھڑے دیکھ رہے تھے

Leave a Comment