نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

شک اور یقین کے درمیاں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،فرحین جمال

شک اور یقین کے درمیاں
میرے ہم نفس ، میرے ہم سفر
میرے سارے رازوں سے آشنا ،
،
تیرے شک کا تیشہ رشتوں کے آبگینوں کو توڑ ڈالے گا
تمہارا شک مجھے ریزہ ریزہ کھا تا رہے گا۔
تمہارا ناروا سلوک میرے برہنہ پا کے چھالےپھوڑ ڈالے گا
یونہی ناحق بگڑتے ہی ر ہو گے۔؟
مجھے پہچان پاو گے کبھی تم
یایونہی لڑتے رہو گے
ہوگر لفظ ِ محبت سے گریزاں
کوئی استعارہ محبت کا ہی بھیجو
تمھاری بے رخی آسیب بن کر،
ریشہ ریشہ مجھے نوچتی رہے گی
تمہارا ھرعذر مجھ کو گوارامگر
ا تنا تو دنیا کو بتادو
تمہیں مجھ سے محبت ہے
محبت بے خبری ہے کہ بے اعتنائی
مگر یہ یاد رکھو تمہار ا شک تمہیں جینے نہ دے گا
یقیں میرا تمہیں مرنے نہ دے گا۔

Leave a Comment