نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

سپنے ،،،،،،،،،،،،،( باد صبا) طاہرہ مسعود

سلگتی جلتی دھوپ میں بیٹھی
چوڑیاں بیچنے والی بچی
سپن سلونے بیچ رہی تھی
آس کھلونے بیچ رہی تھی
لال ہرے اور سونے جیسے
سارے رنگ تھے ا سکے پاس
پھر بھی آنکھون میں تھی یاس
اس کی آنکھون میں سپنے تھے
جس کو پانے کی خاطر ہو
آس لگائے بیٹھی تھی
تھال سجائے بیٹھی تھی
سپنے ا سکے پورے ہوں گے یا نہ ہوں گے
یہ نہ جانوں
لیکن اتنا جانتی ہوں میں
اس کے اپنے دونوں بازو
ان رنگوں سے عاری تھے

Leave a Comment