نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

ترققی کی بھیڑیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عادل رضا منصوری

میں نے
ایک بار پھر
اس طرف دیکھا
جہاں سے شروع کیا تھا سفر
اب وہاں
اک اور سایہ منتظر تھا
آغاز _ سفر کا
جو
میری ہی سمت دیکھ رہا تھا
اور میں
اس کا پیش رو
روکنا چاہتا تھا اسے
ویسے ہی
جیسے مجھے روکنا چاہتے تھے
مجھ سے آگے کی پائدانوں پر کھڑے سائے
مگر
ہم وہ بھیڑیں ہیں
جن کی آوازیں سلب کر لی گئی ہیں
جو پلٹ کر دیکھ تو سکتی ہیں
مگر کچھ بول نہیں سکتیں
اور نہ ہی لوٹ سکتی ہیں
ہمیں
صرف چلنا ہوتا ہے
اس سمت
جس طرف ہانکا جاتا ہے
جیسے کہ
اب
ہانکا جا رہا ہے
خوابوں کے
اس پہاڑ کی جانب
جس کا رستہ
سنہری بھیڑیوں کے دانتوں سے ہو کر گزرتا ہے

Leave a Comment