امی کو کیا ہوتا جارہا ہے دن بدن؟ پہلے تو امی کو کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا. کہیں ان کا ذہنی توازن………..؟؟؟
نہیں نہیں، یہ میں کیا کیا سوچنے لگی ہوں.
اف میں ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہوں.
لیکن
اور پھر سوئی لیکن پر آکر اٹک جاتی.
امی کے یہ عملیات بھی میری سمجھ سے باہر تھے.
امی اور ابا آجکل ہمارے پاس آئے ہوئے تھے، اور مزے ہمارے بچوں کے، ان کی جو فرمائشیں ہم سے پوری نہ ہو پائیں، وہ پلک جھپکتے نانا نانی پوری کردیتے.
میں بھی بچوں کی طرف سے لا پروا سی ہوگئی تھی لیکن والدین کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھتی تھی.
مزے کی بات یہ کہ ان جھگڑوں میں بھی کافی کمی تھی جو ہم میاں بیوی کے درمیان بچوں کے مسائل سے شروع ہوتے تھے.
لیکن امی کا رویہ میری برداشت سے باہر ہوتا جارہا تھا. کیونکہ ان عجیب رویوں میں تیزی آتی جارہی تھی.
باورچی خانے میں داخل ہوتی تو ڈسٹ بن کا آدھا کوڑا منہ چڑا رہا ہوتا، باہر کا گیٹ بھری دوپہریا میں بھی بھڑا ہوا نظر آجاتا، حالانکہ مجھے اس سے چڑ تھی،
استفسار پر پتہ چلتا کہ نانی اماں کو دیکھا تھا ادھر.
اکثر وبیشتر امی کے پلنگ کی چادر سلوٹوں سے بھرپور ملتی، اور تو اور اپنی جگہ سے کھسکی ہوئی ہوتی اور امی اسی پر لیٹی ہوئی ہوتی تھیں.
آخر کیوں؟؟؟؟
یہ اور ایسی کئی باتیں، جن کی تربیت ہمیں شعور میں قدم رکھنے ہی ملنی شروع ہوگئی تھیں اب امی ان سے پہلو تہی کیوں کر رہی ہیں….
وقت یونہی اڑ تا رہا اور مسئلہ جوں کا توں موجود.
اور اب میری طبیعت پر دوگنی بے چینی طاری تھی کیونکہ ابا اب واپسی کا پلان بنارہے تھے اور امی کا مسئلہ لا ینحل.
بہت سوچا کوئی حل نہ ملا.
یوں بھی اگر صرف سوچنے سے ہی مسائل حل ہوجایا کرتے تو آج ہمارا سوچ پر ہی اکتفا کر رہے ہوتے.
اس کے باوجود میرا اکتفا صرف اور صرف سوچ پر ہی تھا.
.
. آخر وہ دن آ ہی پہنچا جس کا مجھے کبھی بھی انتظار نہیں رہا تھا.
امی ابا تیار تھے واپسی کے لئے.
محبت پاش نگاہوں سے ہم سب نے انہیں رخصت کیا
.
.
. گھر میں داخل ہو کر میں نادانستگی میں امی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی.
مجھ پر یہ عقدہ کھلنے میں دیر نہ لگی کہ امی کے یہ تمام،”عملیات ”
در اصل” کس” سلسلہ میں تھے.