آج اس کمرے میں اس کی آخری رات تھی – نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد جائے نماز الماری میں تہہ کر کے رکھی- اپنی چیزوں پہ نظر ڈالی لباس – جیولری – فرنیچر و جو اس نے ایک ایک کر کے خود بنائی تھی لیکن یہ سب بےمقصد بے معنی تھا ان تمام بے جان اشیا کے لمس میں کوئی ردعمل نہ تھا- وہ بستر جس پہ ایک شکن پڑجانے پر راشد کو نیند نہیں آتی تھی عقبی طرف کھلتی کھڑکی پر پڑے پردے کو سرکا کہ کواڑ کھولے شام ہوجانے سے حبس کا احساس بڑھتا جارہا تھا یا شاید اسکا اندر ہی اندر دم گھٹ رہا تھا – اس نے باہر کیطرف منہ کر کے لمبا سانس کھینچا جیسے ساری تازہ ہوا اپنے اندر کی باسی پژمردہ روح میں بھر کے خود کو زندگی کا احساس دلوانا چاہتی ہو لیکن سب کچھ عجیب بے گانگی لئے ہوئے تھا – تنہائی کا نہ ختم ہونےوالا ایسا درد جیسے جسم سے کوئی بڑا حصہ بے درددی سے نوچ کے الگ کر دیاگیاھو- سامنے والے گھر سے آتی تیز چکاچوند روشنی کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا کر اسے خود میں اترتی محسوس ہوئی وہ کواڑ بند کرکے پیچھے ہونے کو ہوئی ہی تھی کہ اسی لمحے اسے اپنے پیچھے راشد کی موجودگی کا احساس ہوا وہ یکلخت سمٹی آنکھوں سے بے اختیار نکل آنے والے آنسو ایک ہاتھ سے پونچھنے لگی – یہ کیسی اجنبیت در ائی ھے ہمارے بیچ وہ گویا ہوئے – میں اتنی بڑی سزا کا مستحق نہیں ہوں رضوانہ ان کے لہجے میں بلا کا درد تھا- رضوانہ اندر سے مزید کٹ کے رہ گئی دل میں آیا کہ بڑھ کے گلے سے لگ جائے ایک ہی لمحے میں تمام گلے شکوے رفع ہوجائیں
بس آج کی رات میرا بسیرا ھے یہاں کل صبح ہوتے ہی میں ہمیشہ کے لئے چلی جاؤنگی- ایسے کیسے چلی جاؤگی مجھے چھوڑ کے اپنا گھر اپنی دینا چھوڑ کے وہ تڑپ کے آگے بڑھے جی میں آیا کہ دونوں بازؤں میں بھر لیں بس کر دیں مت ہاتھ لگایئں مجھے طلاق کہہ چکے آپ مجھے وہ روندھی ہوئی آواز سے بولی—— حرام ہوگیا ہمارا رشتہ — پاگل مت بنو میں نے کوئی طلاق نہیں دی ایسا کیسے ہوسکتا ھے بھلا ساری زندگی کا دل کا ساتھ ایک لفظ سے ختم ہوجائے- لیکن میں نے خود اپنے کانوں سے آپکو مجھے ط ط طلاق دیتے ہوئے سنا آپ غصے میں بولتے ہی چلے گئے اُس کی ہجکی سی بندھ گئی – پھر میں نے اندر سے دروازہ بند کرلیا- جب میں کہہ رہا ہوں طلاق ایسے نہیں ہوتی – نا ہی میری ایسی کوئی نیت تھی تمہیں مجھ پہ یقین ہونا چاہیئے شوہر ہوں تمہارا – وہ چونک کے پیچھے کو مڑی ”شوہر” مولوی دین محمد کی بیٹی جس نے ساری زندگی بچوں خواتین کو قرآن و شریعت کا درس دیا فقہی مسائل سے اچھی طرح آگاہ تھی – ہمارا ساتھ اتنا کچا تو نہیں رضوانہ تم میری زندگی ھو اور میں تمہارا سب کچھ- ہم کیسے جی سکتے ہیں ایک دوسرے کے بغیر انہوں نے محبت سے اسکے کاندھے پہ سر ٹکا دیا- پر رضوانہ کے اندر باہرفنا کردینے والی عجیب جنگ جاری تھی ایکطرف ”طلاق” سے جڑے شرعی آداب تھے اور
دوسری طرف اسکی زندگی باہیں پھیلائے اسے پکار رہی تھی-دھیرے دھیرے اسکا وجود خود باخود ڈھیلا پڑتا گیا وہ کم مایئگی بے وقعتی اوڑھنی چھن جانے کا احساس کہیں دور دفن ہوتا نظر آیا ایسے ہی کسی پل میں اس نے اپنے وجود کو راشد کے چٹان سے سراپے میں محفوظ کر لیا –
بس آج کی رات میرا بسیرا ھے یہاں کل صبح ہوتے ہی میں ہمیشہ کے لئے چلی جاؤنگی- ایسے کیسے چلی جاؤگی مجھے چھوڑ کے اپنا گھر اپنی دینا چھوڑ کے وہ تڑپ کے آگے بڑھے جی میں آیا کہ دونوں بازؤں میں بھر لیں بس کر دیں مت ہاتھ لگایئں مجھے طلاق کہہ چکے آپ مجھے وہ روندھی ہوئی آواز سے بولی—— حرام ہوگیا ہمارا رشتہ — پاگل مت بنو میں نے کوئی طلاق نہیں دی ایسا کیسے ہوسکتا ھے بھلا ساری زندگی کا دل کا ساتھ ایک لفظ سے ختم ہوجائے- لیکن میں نے خود اپنے کانوں سے آپکو مجھے ط ط طلاق دیتے ہوئے سنا آپ غصے میں بولتے ہی چلے گئے اُس کی ہجکی سی بندھ گئی – پھر میں نے اندر سے دروازہ بند کرلیا- جب میں کہہ رہا ہوں طلاق ایسے نہیں ہوتی – نا ہی میری ایسی کوئی نیت تھی تمہیں مجھ پہ یقین ہونا چاہیئے شوہر ہوں تمہارا – وہ چونک کے پیچھے کو مڑی ”شوہر” مولوی دین محمد کی بیٹی جس نے ساری زندگی بچوں خواتین کو قرآن و شریعت کا درس دیا فقہی مسائل سے اچھی طرح آگاہ تھی – ہمارا ساتھ اتنا کچا تو نہیں رضوانہ تم میری زندگی ھو اور میں تمہارا سب کچھ- ہم کیسے جی سکتے ہیں ایک دوسرے کے بغیر انہوں نے محبت سے اسکے کاندھے پہ سر ٹکا دیا- پر رضوانہ کے اندر باہرفنا کردینے والی عجیب جنگ جاری تھی ایکطرف ”طلاق” سے جڑے شرعی آداب تھے اور
دوسری طرف اسکی زندگی باہیں پھیلائے اسے پکار رہی تھی-دھیرے دھیرے اسکا وجود خود باخود ڈھیلا پڑتا گیا وہ کم مایئگی بے وقعتی اوڑھنی چھن جانے کا احساس کہیں دور دفن ہوتا نظر آیا ایسے ہی کسی پل میں اس نے اپنے وجود کو راشد کے چٹان سے سراپے میں محفوظ کر لیا –