پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قافیہ ہوتا کیا ہے ۔یہ اصطلاح ہمارے یہاں بو ساطت فارسی ، عربی سے در آمد ہوئی ۔قافیہ کا مطلب ہے ۔پیچھے آنا ،تعاقب کرنا ۔۔یعنی کچھ مخصوص حروف تہجی ۔۔جن کی تعداد 9 تک ہو سکتی ہے ۔ایک مخصوص حرف تہجی ۔۔جسے حرف روی ۔کہتے ہیں کہ آگے پیچھے چار چار حروف کی صورت میں دوہرائے جاتے ہیں ۔اور ان کی تکرارغزل کے مطلع میں دونوں اور دیگر اشعار میں دوسرے مصرع میں ختم کلام تک جاری رکھی جاتی ہے ۔فارسی نے قافیے کے بعد ردیف کا اضافہ کیا اور شاعری مقفی ہونے کے ساتھ مردف بھی ہوئی ۔آج کل اردو میں بھی ردیف کو شعر کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔
اب یہ جان لیجئے کہ حرف روی کیا ہوتا ہے ۔۔قافیہ کے آخری حرف کو حرف روی کہتے ہیں ۔۔مثلا بخت اورلخت میں ۔۔حرف روی ت ہے ۔۔آیا ،کھایا میں حرف روی الف ہے ۔۔رقص اور شخص میں ص ہے
فارسی قاعدے کے مطابق ۔۔قافیے میں حروف و حرکات ۔۔دو قسم کے ہوتے ہیں ۔۔ایک تو وہ جن کا ہر قافیہ میں لانا ضروری ہو۔جیسے رقص اور شخص متیں ص ۔۔اور ص سے پہلے جزم یا دوسری کسی صورت میں زیر ،زبر یا پیش ۔۔۔لیکن اردو میں ہمارے کلاسیک نے پہلی قسم کو تو روا رکھا لیکن حرکات کو نظر انداز کر کے اردو قافیے کی اپنی الگ اور آزاد حیثیت کو مستحکم کیا ۔۔مثلا میر تقی میر نے نور کے قافیہ کے ساتھ طور یا اوراستعمال کرنے میں کوئی تکلف روا نہ رکھا ۔
سو دوستو ۔مستحضر رہے کہ علم قافیہ پر موجود عربی و فارسی مباحث میں اتفاق رائے موجود نہیں ہے ۔جس کا پرتو اردو پر بھی پڑا ہے ۔۔۔اردو میں مبادیات قافیہ وہی ہیں جو عربی اور اردو میں متعین کیے گئے ۔اس کے باوجود قافیہ کسے کہتے ہیں اور حرف روی کیا ہے ۔اس پر کافی اختلاف ہے ۔ان اختلافات پر پنڈت دتاتریہ کیفی نے ،،کیفیہ،، میں کافی مفید بحث کی ہے ۔
ایک اور بات کہ قافیہ کا تصور صرف نظم و شعر ہی میں نہیں ہے ۔نثر میں بھی موجود ہے ۔جسے ترصیع کہا جاتا ہے ۔اردو و فارسی میں پہلے پہل ہر مصرع میں قافیے کا اہتمام ہوتا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ صرف دوسرے مصرع تک محدود ہو کر رہ گیا۔اور اب یونہی مروج ہے۔
یہاں ایک اور نکتہ سمجھنے کے قابل ہے کہ عربی میں قافیے کی بحث چونکہ نظم و نثر سے متعلق ہے ۔اس لیے کافی پیچیدہ ہے ۔اہل فارس و اردو نے شعر عرب سے بیگانگی کے سبب اسے اور پیچیدہ کر دیا اور خاص طور پر چونکہ قافیے کی بحث علم العروض سے وابستہ اور شعر کے لیے لازم سمجھی گئی ۔عربی پیچیدگی سے آگاہ نہ ہونے اور اردو عربی صرف و نحو میں فصل ہونے کے باعث اس میں قدم قدم پر ٹھوکریں کھائیں ۔حیدر یار جنگ اور مرزا اوج کے استدراکات اس پر دال ہیں ۔۔عروض میں تو وہ غدر مچا کہ حیدر یار جنگ کو تلخیص قافیہ و عروض میں یہاں تک لکھنا پڑا کہ شاید ہی کوئی عروضی ایسا بچا ہے جس نے قافیہ کے مقام پر غلطی نہ کی ہو
قافیے کی دو اقسام ہیں ۔۔سماعی اور صوری۔۔۔۔۔۔۔۔سماعی کا مطلب ہےکہ دو مصرعوں کے آخری لفظوں کے آخری حصوں کا تلفظ یکساں ہو۔۔۔صوری قافیہ اُسے کہتے ہیں ۔جس کے ہجوں میں یکسانی ہو۔بے شک تلفظ مختلف ہی کیوں نہ ہو۔اردو میں سماعی قافیہ مروج ہے
سو یہ نکتہ قافیے کے حوالے سے یاد رہنا چاہیے کہ اردو عروضی قافیہ سماعی یا صوتی ہے ۔جس کی بنیاد حرف روی کے لہجے پر ہے ۔عروض میں قافیے کے 9 حروف قرار دیے گئے ہیں
روی۔تاسیس۔دخیل۔ردف۔قید ۔وصل ۔خروج ۔مزید ۔۔نائرہ
قافیے کا آخری حرف روی کہلا تا ہے ۔۔جیسے کامل اور جاہل میں حرف ل
حرف تاسیس ۔اُس حرف کو کہتے ہیں ۔جس کے اور حرف روی کے درمیان ،،ایک حرف،، متحرک ہو۔۔جیسے کامل میں الف حرف تاسیس ہے۔جس کے اور حرف روی ل کے درمیان میم متحرک ہے۔
حرف دخیل ۔۔۔اُس حرف کو کہتے ہیں ۔جو بلا امتیاز اعراب(زیر۔زبر۔پیش) حرف تاسیس اور حرف روی کے درمیان متحرک ہوتا ہے ۔جیسے کامل میں الف حرف تاسیس ۔۔ میم حرف دخیل اور ل حرف روی ہے
حرف ردف۔۔اُس حرف کو کہتے ہیں جو ساکن ہو اور بلاواسطہ حرف روی سے متصل ہو ۔۔مثلا یار اور بار کا الف ساکن بھی ہے اور حرف روی رائے مہملہ سے متصل بھی
یہاں ایک لطیفہ بھی سن لیجے اور اردو کے علما ءکی حالت زار اور ذہنی غلامی پر ماتم بھی کیجے ۔۔۔۔عربی اور فارسی میں شعرائے عرب و عجم نے حرف ردف کے اختلاف کو روا رکھا اور جائز قرار دیا ہے مثلا وجود کا قافیہ وعید بھی ہو سکتا ہے مگر علمائے اردو اسے اردو کے لیےجائز قرار نہیں دیتے۔ہے نا بقول منٹو ۔۔ ہپ ٹلا بات
حروف قافیہ اگر چہ تعداد میں نو ہیں مگر حرف روی کے سوا کسی کا لانا لازم نہیں ۔یہ شاعر کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ ان میں سے حرف روی کے ساتھ کون کون سے اور کتنے حروف جمع کرتا ہے
قافیے کی بحث میں دو اصطلاحیں اکثر استعمال ہوتی ہیں ۔1۔۔۔اصلی حرف ۔۔۔2۔۔زائد حرف ۔
خرف روی اکثر اصلی ہوتا ہے۔کبھی حرف زائد کو بھی حرف اصلی کے حکم میں کر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا مظلب ہے اس جملے کا؟ اسے سمجھنے کے لیے یہ شعر دیکھیے
مزروع میں ہے میرے خشک سالی۔۔۔۔جو کوئی صدف ہودرسےخالی۔ہوس
اصل لفظ خشک سال ہے ۔۔لیکن یہاں ی یائے زائد یا حرف زائد ہے ۔۔اور خالی کی ی حرف اصلی ہے ۔کیونکہ اسے باقی حروف سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ایسا کرنے سے لفظ کے معنی تبدیل ہو جائیں گے ۔اور وہ خال پڑھا جائے گا ۔جس کا مطلب تل ہوتا ہے ۔۔۔سو حرف اصلی وہ ہوا جو ایک لفظ کا جوہر ذاتی ہو اور حرف زائد وہ ہے جس کے بڑھانے سے معنی میں کوئی فرق نہ پڑے۔
پہلے چار حروف ۔۔ردف (رائے مہملہ کے نیچے زیر لیکن دال اور فا پر جزم ہے) تاسیس ،دخیل اور قید ۔۔۔۔۔حسب ِ منشائے شاعر روی سے پہلے ۔جب کہ وصل ۔خروج ۔مزید۔۔نائرہ ۔۔حرف روی کے بعد لائے جاتے ہیں ۔
یہ چاروں جو روی سے قبل آتے ہیں ۔حروف اصلی ہوتے ہیں اور جو روی کے بعد آتے ہیں۔ وہ حروف زائد کہلاتے ہیں
چار حروف۔یعنی وصل ،خروج ،مزید اور نائرہ ۔۔جو روی کے بعد آتے ہیں ۔جب تک یہ سب یا ان میں سے کوئی حرف بعد روی کے اس سے ملحق نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔حرف روی ساکن ہوگا اور اس کو،، روی مقید ،،کہیں گے ۔۔جیسے۔۔۔۔مری جانب سے چھاتی تم نے کر لی یار پتھر کی۔۔۔بنائی ہے دلوں کے درمیاں دیوار پتھر کی ۔۔۔۔۔۔اس میں ،یار،دیوار،، کی رائے مہملہ ساکن ہے اور روی مقید کہلائے گی۔
حرف وصل ۔یہ حرف بعد روی کے بلا فاصلہ آتا ہے۔اگر حرف وصل کے سوا اور کوئی حرف نہ آئے تو یہ حرف روی کو متحرک کر دیتا ہے اور خود ساکن ہوجاتا ہے۔۔اس میں اور حرف زائد میں فرق یہ ہے کہ حرف زائد روی کا حصہ ہوتا ہے ۔جبکہ یہ روی سے ملحق ہوتا ہے۔ اور اسے الگ کر دینے سے بھی کلمی مہمل نہیں ہو تا۔ جیسے ۔۔رکھے محفوظ خدا عشق کی بیماری سے۔۔۔موت بہتر ہے کہیں دل کی گرفتاری سے (امانت لکھنوی)۔۔اس شعر میں لفظ ،،سے،، ردیف ۔۔۔بیماری اور گرفتاری کی یائے تحتانی حرف وصل اوررائے مہملہ حرف روی ہے۔
جب حرف روی متحرک ہو تو اسے ،،روی مطلق،، کہتے ہیں ۔۔جیسے۔۔نے بلبل چمن نہ گل نو دمیدہ ہوں ۔۔۔میں موسم بہار میں شاخ بریدہ ہوں ۔۔۔۔(سودا)۔۔اس شعر میں دمیدہ اور بریدہ کی دال مہملہ ۔۔متحرک ہونے کے باعث روی مطلق ہے۔
مہملہ ۔۔ایسے حرف کو کہتے ہیں ۔جس پر کوئی نقطہ نہ ہو ۔۔معجمہ ۔۔۔وہ حرف جس پر نقطہ ہو ۔خواہ اوپر خواہ نیچے۔تحتانی ،تحت سے ہے جسکا مطلب ہے ۔حرف کے نیچےنقطہ یا نقطے ہوں اور ،،فوقانی،، کا ماخذ ،،فوق،، ہے ۔۔جس سے مراد یہ ہے کہ جس حرف کے اوپر نقطہ یا نقاط ہوں ۔۔۔ان اصطلاحوں کو اچھی طرح سمجھ لیجے کیونکہ علمی تحاریر میں ان کا استعمال عام ہے
تو حرف ردف کیا تھا؟
حرف ردف۔۔اُس حرف کو کہتے ہیں جو ساکن ہو اور بلاواسطہ حرف روی سے متصل ہو ۔۔مثلا یار اور بار کا الف ساکن بھی ہے اور حرف روی رائے مہملہ سے متصل بھی
لیکن اس ساکن حرف کی پہچان کیا ہے ۔؟ جو ساکن ہو اور بلافاصلہ حرف روی سے متصل بھی ہو۔۔۔تو یاد رکھیے کہ وہ ساکن حرف ،،حروف مدہ،، میں سے ہوتا ہے ۔۔حروف مدہ کا دوسرا نام ،،ردف مطلق ،، ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔حروف مدہ اصل میں حروف علت ہوتے ہیں یعنی ۔۔الف۔۔واؤ۔۔یا۔۔۔۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اُن کے ما قبل کی حرکت یعنی ان سے پہلے آنے والے حرف پر جو حرکت ہے وہ ان تینوں حروف کے موافق ہو ۔
یعنی ۔۔۔حروف مدہ ۔۔۔ا،و،ی ۔۔۔۔ہوتے ہیں ۔۔اور حرف ساکن اگر ان تین حروف میں سے ہوگا اور حرف روی سے بلا فاصلہ متصل ہوگا تو ردف کہلائے گا ۔۔۔جیسے یار کا الف ۔۔نور کا و ۔اور تیر کی یائے معروف
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ موافق حرکت سے کیا مراد ہے ۔۔یاد رکھیے کہ الف ۔زبر کا قائم مقام ۔۔واؤ ۔پیش کا قائم مقام اور یا ۔۔زیر کی قائم مقام ہوتی ہے ۔مثلا لفظ نُور میں حرف روی سے بلا فاصلہ متصل و ہے ۔جس کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے حرف نون پر اگر پیش ہوگی تو واؤ کو حرف ردف سمجھا جائے گا ۔ورنہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔علیٰ ہذاالقیاس ۔۔
یہاں یہ خیال رہے کہ اردو کی کلاسیکل کتابوں میں یہ ایک متنازع ضابطہ ہے ۔جسے حسب معمول عربی فارسی سے اخذ کیا گیا ہے۔۔اور اردو نے اسے قبول نہیں کیا ۔ورنہ طُور اور غور کے قافیے اردو اساتذہ کے یہاں نہ پائے جاتے۔
ردف مطلق کے علاوہ ایک ردف زائد بھی ہے۔۔
ردف زائد ۔۔۔۔ردف زائد اُس حرف ساکن کو کہتے ہیں جو حرف مدہ یعنی ردف مطلق اور حرف روی کے درمیان واقع ہو ۔۔۔جیسے دوست کا سین ۔۔۔۔۔۔۔اور تاخت کی خ
فارسی کے تحت اردو نے بھی رد ف زائد کو ردف میں شامل نہیں کیا بلکہ اسے روی میں داخل کیا ہے
یہ دو اختلافی مسائل اس آگاہی کے پیش نظر عرض کر دیے گئے ہیں تا کہ قاری کو احساس رہے کہ ہمارے بزرگوں نے بھی بعض جگہوں پر عربی قواعد سے انحراف کیا ہے ۔
حرف قید ۔۔۔۔جو حرف ساکن ۔۔حروف مدہ یعنی الف ۔واؤ ۔یا ۔۔میں سے نہ ہو اور ردف کے مقام پر بلافاصلہ حرف روی سے جڑا ہو ۔۔اُسے ۔۔حرف قید ۔۔کہتے ہیں ۔۔جیسے ۔۔ابر ۔۔۔ستر۔محو۔۔میں ب،ت اور ح۔۔حروف قید ہیں ۔۔جبکہ ر اور و حروف روی
حرف روی اور اس سے پہلے آنے والے چہار اقسام حروف کا بیان ختم ہوا۔۔۔اس فائدہ کے ساتھ کہ حروف فارسی۔۔ ۔۔پ ،چ،ژ،گ۔۔۔۔اور حروف ہندی ۔۔ٹ ،ڈ،ڑ کو حروف قید میں شمار نہیں کیا جاتا۔
ہم حرف روی اور اس سے قبل آنے والے حروف پر بات کر چکے ہیں ۔۔روی کے بعد آنے والے حرف وصل پر بھی گفتگو کی جا چکی ۔۔سو وصل کے بعد آنے والے دوسرے حرف کی طرف بڑھتے ہیں ۔جسے ،،حرف خروج ،، کہا جاتا ہے
خروج۔۔۔یہ حرف بلا فاصلہ حرف وصل کے بعد آتا ہے ۔یعنی اس سے ملحق ہوتا ہے۔۔۔۔جیسے۔۔۔۔جو اس شور سے میر روتا رہے گا۔۔۔تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا۔(میر)۔۔اس شعر میں روتا اور سوتا کے قافیوں میں واؤ حرف روی ہے ۔۔تے حرف وصل اوراور الف حرف خروج ہے۔
اب یہاں یہ ملحوظ خاطر رہے کہ یہ حرف بھی علمائے فارس میں متنازع ہے ۔کیونکہ فارسی قافیے میں حرف خروج نہیں ہوتا۔۔وہ اسے حرف وصل میں شمار کرتے ہیں لیکن عربی کے توسط سے اردو میں رائج ہے
حرف مزید۔۔تعریف کے مطابق یہ لفظ حرف خروج کے بعد بلا فصل آتا ہے ۔۔لیکن اردو قافیےمیں اس کے لیے گنجائش ہی نہیں ۔کیونکہ گڑبڑ یہ ہے کہ عملی سطح پریہ قافیے کے بجائے ردیف میں داخل ہو جاتا ہے ۔۔۔مگر علمائے اردو مصر ہیں کہ اسے حروف قافیہ میں شمار کیا جائے ۔مثلا میر انیس کے ایک شعر کے حوالے سے صاحب بحر الفصاحت کا یہ بیان دیکھیے۔۔۔۔شعر ہے۔۔پیارے تُو اسی خاک پہ گھوڑے سے گرے گا۔۔۔ہے ہے یہیں خنجر تری گردن پہ پھرے گا۔۔۔۔اب اس شعر میں جیسا کہ صاف ظاہر ہے کہ ،،گا،، ردیف ہے ۔لیکن صاحب بحرالفصاحت کا ارشاد ہے کہ۔۔،،گرے گا اور پھرے گا ۔۔میں رائے مہملہ روی ہے۔اور یائے تحتانی حرف وصل اور کاف فارسی (یعنی گاف)خروج اور الف مزید ،،۔۔۔۔۔اب اس بیان میں گڑبڑ یہ ہے کہ چونکہ ر ۔روی ہے اور ۔ی۔وصل۔۔۔اس کے بعد ،،گا،، بطور ردیف ہے ۔جس کے باعث ۔حرف خروج اور حرف مزید کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں بچتی ۔مگر چونکہ مسئلہ اندھی تقلید کا ہے ۔اس لیے ان دونوں حروف کو زبردستی ردیف سے چھین کر قافیہ میں داخل کر دیا
یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ،،گا ،،کو بھی قافیہ میں شامل سمجھا جائے ۔جبکہ غزل میں یہ صورت حال ممکن ہی نہیں کہ آپ ردیف کو قافیے میں اس طرح داخل کر دیں
بہر حال ۔۔حرف مزید کی درست مثال یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوئے حملہ آور جو تورانیان ۔۔۔تو پہنچے ادھر سے بھی ایرانیان (منشی)۔۔تورانیان اور ایرانیان میں ۔۔پہلا نون حرف روی ۔یائےتحتانی حرف وصل ۔الف حرف خروج ۔۔اور نون ثانی حرف مزید
حرف نائرہ۔۔یہ حرف ۔۔حرف مزید کے بعد آتا ہے ۔۔لیکن اس کا عملی اطلاق بھی عرب و فارس کے تبرکات سنبھال رکھنے کے لیے قافیہ کا بھلاوا دے کر ردیف پر ہی ہوتا ہے ۔۔جیسے۔۔۔۔۔۔۔تاریکی زندان میں نہ اس طرح گھٹیں گے۔۔۔۔یوسف تو چھٹے قید سے کیا ہم نہ چھٹیں گے ۔۔۔(میر انیس)۔۔اب علمائے اردو اس شعر میں حرف نائرہ کی تعریف یوں کرتے ہیں ۔۔۔تائے ہندی (یعنی ٹ)حرف روی۔۔یائے تحتانی حرف وصل ،نون غنہ حرف خروج ۔۔کاف فارسی(یعنی گاف)مزید اور یائے آخر ۔حرف نائرہ
اب یہاں میں صرف تین محققین اور علما کے نام لکھتا ہوں ۔جو حرف روی کے بعد آنے والے حروف کے بارے میں کسی متفق فیصلے پر نہیں پہنچ سکے ۔وجہ وہی ہے کہ دیگر زبانوں کے قواعد جب آپ ایک آزاد زبان پر نافذ کرنے کی کوشش کریں گے تو خواہ کوئی بھی وجہ پیش کریں نتیجہ کنفیوژن کی شکل ہی میں نکلے گا ۔۔خواجہ نصیر الدین محقق طوسی انہیں داخل ردیف کرتے ہیں ۔مرزا قتیل انہیں اسی طرح رکھنے پر مصر ہیں اور امام بخش صہبائی صرف حرف وصل کو تسلیم کرتے ہیں ۔
مندرجہ بالا مثال میں ،،نون غنہ ،، آیا ہے ۔جسے حرف خروج کے طور پر بتایا گیا ہے ۔ممکن ہے یہاں یہ سوال پیدا ہو کہ نون غنہ کو کیوں بطور حرف محسوب کیا گیا ہے ۔؟اس شک کو رفع کرنے کے لیے یہ بتانا لازم ہے کہ جب علم العروض کا معاملہ ہو تو ہم نون غنہ کو تقطیع میں بطور حرف تسلیم نہیں کرتے ۔مگر علم القوافی میں اسے بطور حرف تسلیم اور محسوب کیا جاتا ہے ۔اس لیے اس سلسلے میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں رہنا چاہیے
جمیل الرحمن