یخ بستہ سرد موسم میں مری سے لاہور جانے والی کوچ بل کھاتے پہاڑوں میں نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ استقبالیہ پر بیٹھی صابرہ نے بچی ہوئی ٹکٹوں کو سنبھال کر دراز میں رکھا۔ اڑی رنگت والی گھسی پٹی شال مضبوطی سے لپیٹتے ہوئے شیشے کے پار دیکھا۔ وہ اس وقت مہنگے گرم کپڑوں میں ملبوس سیاحوں یا برف سے منعکس ہوتی سنہری کرنوں کا حسن محسوس کرنے سے قطعی قاصر تھی۔ اسکا ذہن برف کے نیچے چھپی مٹی کو سوچتے ہوئے طلب و رسد کے قانون پر غور کر رہا تھا ” کاش مٹی کو گوندھ کر ہزاروں روپے کے فضول ڈیکوریشن پیس اور برتن بنانے کی بجائے اگر روٹی بنائی جا سکتی تو دنیا میں کوئی بھی ہماری طرح یوں بھوکا نہ سوتا”۔
اسے اپنی خودداری ، قرضوں کے طومار ،بلکتے بچے اور زخمی شوہر یاد آئے تو آنکھیں چھلک پڑیں۔ جو اپنا سیل فون بیچ کر آٹا لانے کی بجائے غنڈوں سے پٹ کر خالی ہاتھ اپنی لاش گھیسٹتا مشکل سے گھر پہنچا تھا۔ ان ہی سوچوں میں غلطاں وہ من وسلوی کے انتظار میں اپنی دائیں ایڑی زمین پر مارتی جا رہی تھی مگرکوئی سکھ کاآب زم زم رواں نہ ہو سکا ۔ اب تو زندگی اور موت کے درمیان بھاگتے رہنےکی سعی بھی لاحاصل ہو چکی تھی ۔ اسی اثنا میں بوسیدہ سا کوٹ پہنے ٹھٹھرتا اور کچھ جھجکتا اجنبی سامنے آ کھڑا ہوا۔ پھٹے ہوئے دستانے والے کانپتے سرد ہاتھ سے کاغذ کا ٹکڑا کھڑکی میں ڈال کر بولا۔
“وہ ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ درخواست ۔۔۔۔کیا مجھے یہاں کوئی نوکری مل سکتی ہے؟”
صابرہ کو یوں لگا جیسے آنے والا کوئی اور نہیں ، خود اسکا اپنا شوہر اسلم ہو جو یونہی جگہ جگہ نوکری کی درخواستیں دیتا پھرا کرتا تھا۔ جسکے ایک کندھے پر مجبوری تو دوسرے پر مایوسی مستقل جمی رہتی اور بے بسی، آکاس بیل کی طرح پورے وجود سے لپٹی ہوئی۔ اب تو انکو یقین ہو چکا تھا کہ ہر جگہ استقبالیہ کلرکوں کی لاپرواہی کے سبب اسکی درخواستیں کبھی کمپنی مالکان تک پہنچ ہی نہ پائی ہوں گی ۔ اسی لئےصابرہ نے بہت فکر اور ذمہ داری سے سامنے کھڑےشخص کی درخواست سنبھالی۔
“جی بالکل ، آپ فکر نہ کریں ۔میں اپنے ہاتھوں سے یہ درخواست ان کو دوں گی اور ذاتی طور پر سفارش بھی کروں گی ”
یہ سن کر اجنبی کی آنکھوں میں امید کی لو جاگی اور چہرے پر زندگی کی حرارت نمودار ہونے لگی تو اسے گہری طمانیت کا احساس ہوا ۔
شام کو علیم صاحب اپنی کمپنی کے لئے دس نئی کوچ خریدنے کی خوشی میں مٹھائی کا ڈبہ لئے اندر داخل ہوئے۔ قلاقند کے دو ٹکڑے ہاتھ میں اٹھا کر صابرہ کی طرف بڑھا دیے۔
” ایک ببلی کا اور ایک مٹھو کا ، میں اور اسلم کل تنخواہ ملنے پر کچھ کھا لیں گے ” مٹھائی دیکھ کر اسے معجزوں پر یقین آنے لگا۔
“جلدی پکڑو نا صابرہ ،کیا سوچ رہی ہو”
یہ سن کر وہ گڑبڑا گئی اور جلدی سے ہاتھ مار کر ادھر ادھر کوئی چیز ڈھونڈنے لگی جس میں قلاقند رکھ کر اپنے گھر لے جا سکے۔ وہاں ایسا کچھ بھی موجود نہ تھا۔ وہ کچھ سوچ کر مڑی، تھوڑا سی جھجکی اور پھر احتیاط سے سنبھال کر رکھی ہوئی نوکری کی درخواست اٹھا لی۔-