وہ خاموش تھی ، طے نہیں کر پا رہی تھی کہ روتے یا خوشی سے ناچے -وہ اپنے مقصد میں کامیاب جو ہو گئی تھی – لوگ آنگن میں بیٹھے اس کے خاوند کو بدھائی دے رہے تھے – مگر بدھائی کا یہ طریقہ انوکھا تھا -دبا دبا ، کسی آنکھ میں خوشی کا کوئی قطرہ نہیں ، ہاں کرسی پر بیٹھے مولانا رحمٰن کے چہرے پر ضرور خوشی کی کچھ چمک نظر آتی تھی مگر ان کی آنکھوں میں بھی ہر پل کے آخری حصّے میں ایک افسوردگی جھلک اٹھتی اور وہ اس کمرے کی جانب دیکھ لیتے جس میں وہ بیٹھی ہوئی تھی اور دوسرے پل کے پہلے حصّے میں مسکرا اٹھتے –
وہ عجیب کشمکش میں تھی – پچھلے پانچ سالوں میں جتنے بھی کام اسے سونپے گئے تھے وہ سب اس نے با خوبی انجام دئے تھے – وہ جس حلقے سے تعلّق رکھتی تھی اس میں اس کا ایک وقار تھا ، لوگ اس کی جانب عزت اور احترام سے دیکھتے تھے – اور آج تو اس کا مرتبہ آسمان چھو رہا تھا – اس نے وہ کر دکھایا تھاجو قصّے کہانیوں کی بات تھی – مگر سب یہ بھی سمجھتے تھے کہ ایسا کرتے وقت اس کا کلیجہ پھٹ پڑا ہوگا ، انھیں یہ بھی احساس تھا کہ اس پر کیا گزری ہوگی ، کچھ لوگ اس کی قربانی پر عش عش کر رہے تھے – وہ ان کی نظر میں ایک نئی رہنما تھی ، جس کے نقش_قدم پر وہ چلنا چاہتے تھے – مگر اس خوشی کے عالم میں ایک عجیب سی ماتمی صدا کی چپپی تھی –
اس کے گھر کے باہر لوگوں کا تانتا لگا ہوا تھا – مرد اس کے خاوند سے اور عورتیں اس سے ملنے کے لئے بے قرار تھیں – مگر ملتے وقت صرف مصافحہ کرتے اور آہستہ سے “ماشاءالله ” کہتے اور بعض افراد اس کے خاوند سے یہ کیہ اٹھتے-
“الله ، آپ کی قربانی قبول کرے ”
جس سنتے ہی اس کے خاوند کی آنکھ سے چند آنسو گر پڑتے ، مگر وہ ——- خاموش تھی اور اس کی آنکھیں بھی —– نیم خاموش جیسے اشکوں کی زبان پر تالا پڑا ہو-
تبھی ایک عورت اس کے قدموں میں آ بیٹھی، اور کہا –
“آپا، میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دو ، میں بھی آپ کی طرح قوم کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنا چاہتی ہوں …….. آپا ،مگر ایک سوال ہے جو آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں ؟” اس نے آگے کہا
“سچ بتائیے ، کیا ایک بار بھی ماں کا دل نہیں کانپا اپنے اکلوتے بیٹے کو جنّت کی راہ پر بھیجتے ہوئے…”
— یہ سنتے ہی وہ پھٹ پڑی
“میرا بچّہ….. مجھے کیا معلوم تھا تو بھی وہاں ہوگا ….. وہ بم تو کافروں کے لئے تھا ………. تو کہاں چلا گیا ….اپنی ماں کو چھوڑ کر ……میرا بچّہ”
یہ سنتے ہی قدموں میں بیٹھی عورت حقارت سے اس کی طرف دیکھنے لگی ….اور مولانا رحمٰن یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے –
” کمرہ بند کر دو …. جنازے کا وقت ہو گیا ہے”-