میرا نام ۔ ۔ ۔ ۔ چھوڑیں ، گریش دادر، ششی کھتری ، اللہ داد ، گُربچن سنگھ ، پشوتن بھنڈارا ، کرِس جوزف ، کچھ بھی کہہ لیں ، کہانی میری نہیں کشکول کی ہے ۔
اب تو مانگنے والوں کے رنگ ڈھنگ بدل چکے مگر میرے بچپن میں ایسا نہیں تھا ۔
گلی میں کسی فقیر کی صدا لگتے ہی ہماری والدہ اٹھتیں اور کبھی آٹے ، کبھی ٹوٹا چاولوں کی مَٹی کی طرف یا پھر مرتبانوں سے کوئی دال نکالنے چل پڑتیں ۔ اس سے پہلے کہ صدا کار گھر دوار آئے ، چَھنی بھر آٹا ، ٹوٹا چاول یا کوئی دال میرے ہاتھ میں ہوتی ۔ میں بِن سنے کہے اسے لئے سیڑھیاں اتر جاتا ۔ واپس آنے تک فقیر کی دعائیں کھڑکی سے در آتی رہتں ۔
امی جانتی تھیں کہ کس کو کیا دینا ہے ۔ میں بھی پہچانتا تھا ۔ سارنگی بجاتا سنت آیا ہے تو اسے چاولوں کی حاجت ہے اور جو اِکتارا چھیڑتا آیا ہے ، اسے آٹا درکار ہے ۔ ان ملنگوں کا پھیرا جمعرات یا جمعہ ہی ہوتا ۔
پیسوں کا حاجت مند آواز نہیں لگاتا تھا وہ صرف گھروں کی کنڈی بجاتا تھا ۔ تین بار بجتی کنڈی پتہ دیتی تھی کہ ‘ کامو’ ہے اور اس کے گھر میں بیماری ہی اور دوا دارو واسطے اسے پیسوں کی ضرورت ہے ۔ وہ ہر گھر کی کنڈی نہیں کھٹکاتا تھا ۔ جانو تھا کہ کون اس کی حاجت پوری کر سکتا ہے ۔ پھر یہ بھی نہیں وہ ان سب کی ہی کنڈی بجائے ۔ جہاں حاجت پوری ہوئی ، وہ لوٹا ۔ امی ساتھ بھی اکثر ہوا کہ بٹوی سے نکلے سکے ہاتھ میں ہی دھرے رہ گئے کامو ہمارے دوار پہنچا ہی نہیں ۔ ہم میں سے کوئی بولتا :
” وہ تو آیا ہی نہیں ، یہ پیسے ہمیں دے دیں ہم ‘بِدانا’ لے لیں گے ۔ ”
امی سرزنش کرتیں:
” وہ اپنے جیب خرچ سے ، یہ اس کا حصہ اور امانت ہے ، جب آئے گا تو لے لے گا ۔ ”
ماں کی یہ منطق میری سمجھ سے باہر تھی کہ یہ اس کا حصہ اور امانت کیسے ہے ۔
بس اسی طرح سبھی سنت فقیروں کی پہچان تھی ہم کو ۔ کوئی پیشہ ور گداگر نہیں تھا ۔
ہاں بات تو تھی اس ‘کشکول’ کی جو میں نے اِن فقیروں کے ہاتھوں میں دیکھا تھا ۔ وہ کچا دان لینے کے کام آتا تھا اور پکا ہوا بھی ۔ کچا دان سنت اپنے جھولے میں ڈال ، اسے جھاڑ لیتے جبکہ پکا ہوا کسی دہلیز پر بیٹھ کر کھا لیتے ، میونسپلٹی نل سے اسے ھنگالتے اور اسی میں پانی پی ، شکر ادا کرتے آگے بڑھ جاتے ۔ مجھے یہ کشکول کچھ عجیب سا لگتا تھا کہ کچا دان بھی وصولے اور پکے ہوئے کو بھی سمیٹے ، دھل جائے تو صاف اور خالی ۔ اِدھر ہم کہ ہر شے کے لئے الگ برتن ، چمچ کانٹے کا جھنجھٹ علیحدٰہ ، پھر بھی ڈانٹ کہ تمیز نہیں ۔
وقت پنچھی بنا اور میں اکیلا ہوں ۔ میرے کھانے کے برتن بھی سمٹ چکے بس شیشے کا ایک ڈونگا ہے ۔ کبھی پکا پکایا ‘ دان ‘ لے آتا ہوں ، کبھی خود کچے کو تھاپ ، ملیدہ بنا اس میں انڈیل پیٹ کی آگ بجھا لیتا ہوں ، اسے پانی سے ھنگال کر اسی میں پانی پپیتا اور ‘ الٹا ‘ کے رکھ دیتا ہوں ۔
‘ کشکول ‘ کی اہمیت اب سمجھ آئی ہے کہ وہ کتنے کام کا تھا اور ‘ کیا ‘ ، ‘ کس ‘ کا حصہ ہوتا ہے