تمہارا سب سے بہتر پرزنٹیشن ہونے کے باوجود یہ اسائنمنٹ با س نے منوج کو دے دیا اور اب وہ مزے سے کمپنی کے پیسے پر ناروے گھوم کر آئےگا، آشا کی ساتھی کلیگ نے اسے سنایا تو اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکا دئے جیسے کہہ رہی ہو… ” پروا ہ کسے ہے-” اس کے بعد اور زیادہ انہماک سے کمپیوٹر پر جھک گئی . مگر اب آشا کا ذہن منتشر ہو چکا تھا، یہ صرف گھومنے اور نیا ملک دیکھنے کا فائدہ تو نہیں تھا یہ فائدہ تو معاشی بحران سے باہر نکلنے کا بھی تھا .مگر “پرواہ کسے ہے !” جیسا چھوٹا سا جملہ اس کا تکیہ کلام بن چکا تھا –اپنی زندگی میں ہر مشکل سے جوجھتے وقت وہ پرواہ کسے ہے کا گدا گھماتی اور منھ چڑھاتے ہر سوال کو آن کی آن میں زمین بوس کر دیتی .وہ جانتی تھی کہ ایسے کسی موقعے کا فائدہ وہ اپنی ضعیف ماں اور چھوٹے بچوں کی وجہ سے نہیں اٹھا سکتی تھی دن بھر آفس کی مصروفیت میں وہ اس بات کو بھول گئی . مگر شام میں گھر کے لئے نکلتے وقت جب وہ آٹو رکشہ میں بیٹھ رہی تھی منوج نے اپنی کا ر اس کے پاس روکی-
” آپکو چھوڑ دوں؟”
“نہیں مجھے راستے میں کچھ اور بھی کا م ہے، بائی دی وے کانگریچولیشن! ”
“تھینکس.. اٹس آل بیکاز آف یو –” وہ مسکراتے ہوئے کار آگے بڑھا لے گیا .
اور وہ یہ سوچے بغیر نہ رہ سکی کہ اگر وہ بھی منوج کی طرح سارے مواقعے کا فائدہ اٹھا پاتی تو آج تک کرائے کے آٹو میں سواری نہ کرتی . اسے یاد آیا بچپن سے اس کی بیباک ،آزادانہ فطرت اور اس کی خود اعتمادی، اس کی ذہانت کوصبر کی آنچ دکھا کر اور تربیت نام کے ہتھوڑے سے ضرب لگا لگا کراس کی شخصیت کو ایک خاص سانچے میں ڈھال دیا گیا تھا-
اپنی گلی کے نکڑ پر اترتے ہوئے اسے یاد آیا کہ ماں کی دوا لینی ہے دوا لیکرمڑی تو سامنے پھل والے کی ریڑھی سےاپنے بچوں کے لئے پھل خریدتے ہوئے چند ندیدی آنکھوں اور خالی پیٹ والے بچوں کو اپنی طرف گھورتے پایا ،ان آنکھوں میں نہ جانے کیا تھا کہ وہ پرواہ کسے ہے والے انداز میں کندھے نہ اچکا پائی مگر تیز تیز قدم اٹھاتی گلی میں داخل ہو گئی… گلی میں کچھ اوباش قسم کے لڑکے غول کی شکل میں ادھر ادھر کھڑے تھے اور اب بھوکی نظریں پھل کی تھیلی پر نہیں اس پر تھیں.. وہ بےنیازی دکھاتی سب سے بچتے بچاتے گھر میں داخل ہوئی اورباہر کی ساری فکر بھول گئی … اب ایک نیا محاذ سامنے تھا ..کا م والی نہیں آئی تھی ،وہ پرس پھںیک کر مشین کی طرح کا م میں لگ گئی،مگر ماں کی مسلسل بڑبڑاہٹ اسے غصہ دلانے لگی .جب سوتے وقت وہ ماں کو دوا کھلانے آئی تو وہ پھر بولی .
” کتنی بار کہا بائی بدل لے، تو نے کچھ کھایا بھی کہ نہیں ؟… اور پربھات کو فون تو کر اتنی دیر ہو گئی لگتا ہے پھر دوستوں کے ساتھ کہیں محفل جما کر بیٹھا ہوگا بیوی بچوں کی فکر ہی نہیں ، آخرکب آئےگا ؟ ”
“اوہ تو پرواہ کسے ہے ؟؟؟، سب ہو گیا نا… اب سو جاؤ … ” وہ جھلا کر بولی اور اپنے کمرے میں آکر لیٹ گئی … ہر بات پر پروا کسے ہے کا گردان کرنے والی کا تکیہ آنسوؤں سے بھیگ گیا .