ہر صبح کمرے کی یہ چھت
آہستہ آہستہ میری جانب بڑھنے لگتی ہے
اور میری ناک سے دو بالشت اوپرہوا میں معلق ہو جاتی ہے۔
کبھی کبھی میں اس چھت کا حصہ بن کردیکھتا ہوں
کہ اس کمرے میں روزانہ میرے ساتھ کیا ہوتا ہے
یہ عورت جو مجھے بیزار نظروں سے دیکھتی ہے
یہ میری بیوی نہیں
اس وارڈ کی ایک نرس ہے۔
میرے علاوہ یہاں سب ذہنی مریض ہیں۔
اس مصطفٰی قریشی سے مشابہ شخص سمیت
جو اپنے آپ کو ڈاکٹرسمجھتا ہے
کل میرا بھائی مجھ سے ملنے آیا تھا
وہ جاتے ہوئے نرس کو چوری چھپے ۱۰۰ روپیہ پکڑا گیا تھا
جاتے ہوئے اپنی آنکھوں کو بار بار مل رہا تھا
اسکے جانے کے بعد وہ میرے لئے سوڈے کی ٹھنڈی بوتل لائی۔
اور بس۔
ایک دن میں نے پوچھ لیا
اب سوڈے کی بوتل ۱۰۰ روپے کی ہوگئی ہے؟
میں یہاں بہت خوش ہوں
ماں کے بعدمحلے کے لڑکوں کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔
وہی کہتی تھی کہ بیٹا یہ دنیا اچھے لوگوں کو ہی تنگ کرتی ہے۔
میں نے بہت پوچھا کہ ایسا کیوں ہے
کہا کرتی تھی
تجھے ایک دن خود پتا چل جائے گا۔
مجھے تو اب تک وہی باتیں معلوم ہیں جو اس نے بتائی تھیں۔!