مس نگہت حسن ہماری انگلش کی ٹیچر مقرر ہوئیں۔ مس نگہت ان اساتذہ میں سے تھیں جو اس پیشے میں حادثاتی طور پر نہیں بلکہ ایک مشن سمجھ کر آتے ہیں۔ وہ کلاس میں داخل ہوتیں تو مجھے کلاس روم کے درودیوار پردیدہ زیب نقش و نگار بنے محسوس ہوتے۔ تمام فضا یکسر بدل جاتی۔ اپنی جاذب_ نظر شخصیت کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک دلآویز مسکراہٹ بچوں کی طرف اچھلتیں اور نہایت ملائم لہجے میں گڈ مارننگ کڈز کہتیں تو ساری کلاس یک زبان ہو کر پورے دل سے گڈ مارننگ ٹیچر کہتی۔ وہ عموما” کلاس میں کوئی نہ کوئی غیر معمولی چیز لے کر آتیں۔ کبھی کوئی پتّہ، کبھی پھول، کبھی کوئی تصویر اور کبھی کوئی اور ایسی چیز ان کے ہاتھ میں ہوتی۔ بچوں کی آتش_ شوق اس قدر بھڑک جاتی کہ وہ سر اٹھا اٹھا کر ، ایک دوسرے کو پیچھے ہٹا ہٹا کر، کھڑے ہو ہو کر اس چیز کو دیکھنا چاہتے۔ پھر وہ مسکرا کر اس نابغے کو سب کے سامنے نمایاں کرتے ہوئے پوچھتیں، ” ناؤ ٹیل می واٹ از دس”۔ بچے پورے ذوق شوق سے اپنے معصوم تخمینے لگاتے جاتے۔ کبھی کوئی بچہ شے کی حقیقت تک پہنچ جاتا اور کبھی یہ سربستہ راز مس نگہت کو خود ہی طشت از بام کرنا پڑتا۔ پھر وہ بچوں سے اسی چیز کے بارے میں اس طرح سوال پوچھتیں کہ ہمیں احساس ہی نہ ہوتا کہ پڑھائی کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ ہماری ٹیچر اس چیز کے بارے میں سوالات کر کے اس طرح سبق پر آتیں جیسے یہ سب محض اتفاق تھا کہ ہمارا سبق بھی اسی چیز سے براہ_ راست یا بالواسطہ متعلق تھا۔ ہم سب بچے اس بات پر بہت حیران ہوتے۔یہ بہت بعد جا کر پتہ چلا کہ یہ محض اتفاق نہیں ہوتا تھا۔ وہ ارادتا” اس دن کے سبق سے متعلق کوئی ایسی اچھوتی چیز اپنے ہمراہ لاتیں کہ بچوں کی دلچسپی بڑھ جاتی۔
ایک دفعہ گرامر پڑھاتے ہوئے مس نگہت نے بورڈ پر جلی حروف میں انگریزی کے الفاظ “ہی، شی اور اٹ” لکھے اور پھر خود کلاس کی پچھلی دیوار کے ساتھ دوزانو ہو کر ایک ماہر نشانہ باز کی طرح ہاتھوں کو بندوق بناتے ہوئے “ہی، شی اور اٹ” کا نشانہ باندھا اور منہ سے “ڈز، ڈز، ڈز” فائر کی آواز نکالی۔ پھر بورڈ پر جا کر “ہی، شی، اٹ” کے سامنے تین دفعہ انگریزی میں ڈز لکھا اور کہا ” کل ہی، شی، اٹ ود ڈز، ڈز، ڈز”۔ مجھے اس دن کے بعد زندگی بھر نہیں بھولا کہ” ڈز” صرف واحد غائب کے ساتھ ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایسے کئی بہت سے ایسے ” ٹوٹکے” انہوں نے سکھائے کہ انگلش گرامر کے بہت سے عقدے حل ہونا شروع ہو گئے۔ جب ابا جی نے میرے لیے ٹیوشن کی بات کی تو انہوں نے کہا’ ” سلمان کو ٹیوشن کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ آپ مجھے کچھ وقت دیں” ۔ اور میری ٹیچر نے غلط نہیں کہا تھا۔ مس نگہت نے مجھے مخاطب کر کے کہا،” سلمان میری بات کی لاج رکھنا” اور میں نے اپنی ٹیچر کا سر کبھی جھکنے نہ دیا۔ جب سالانہ امتحان ہوا اور میں نے ان کا سر فخر سے بلند کر دیا تو انہوں مجھے ساتھ لپٹا کر بہت پیار کیا۔ تب انعام میں ملے ہوئے تمام کپ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ صرف اپنی ٹیچر کا پیار اور حوصلہ افزائی یاد رہی۔ اردو میڈیم سے انگلش میڈیم میں آنے والے بچے کو ایسی نمایاں کامیابی دلوانے میں سرا سر میری ٹیچر کا ہاتھ تھا۔ آج بھی جب ان کا شفیق چہرہ میری آنکھوں میں چمکتا ہے تو کسی تشکر آمیز لمحے میں میری آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی ہے۔