“پیارے اشفاق!
بے چینی سے انتظار ہے تمہارا، لیکن یہ اضطراب بھی کہ تم پھر وہی سوال دہراﺅگے، اور مجھے پھر انجان بننے کا ناٹک کرنا پڑے گا!
اب مجھ سے یہ کسک تنہ ابرداشت نہیں ہوتی ، لہٰذا تمہیں بھی شریک کررہا ہوں۔
تم جانتے ہو، ملکہ کوہ سار،مری ہمیشہ سے ہم دونوں کی مشترکہ محبوبہ ہے۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ میں ہرسال گرمیوں کی چھٹیاں تمہارے پاس مری میں گزاروں ۔ جی پی او (اسکینڈل پوائنٹ) کے دائیں طرف سے بلند ہوتی پگڈنڈی کے ذریعے ہم روزانہ سہ پہرکے وقت سبز چھتوں والے عالی شان حکومتی مہمان خانے کے سامنے واقع چھوٹی سی پہاڑی پر پہنچتے ، جہاںدیو قامت درختوں کے درمیان بنا قدرتی پنڈال ہمارا پسندیدہ مقام تھا۔ ہم گھنٹوں وہاں بیٹھتے، ڈھیروں باتیں کرتے لیکن ہماری گفتگو گھوم پھر کر اس پری چہرہ لڑکی پرمرکوز ہوجاتی جو ہر روز اس پگڈنڈی پر واقع ایک گھر کی بالکونی میں ہمیں دکھائی دیتی تھی، کبھی زلفیں سنوارتے ہوئے ، توکبھی مطالعے میں مگن۔ لیکن ہم جانتے تھے وہ دراصل ہمارا ہی انتظار کرتی ہے ۔ معاملہ کافی دل چسپ لیکن پیچیدہ تھا۔ مجھے تمہاری اس بات کا تو اعتبار تھا کہ مری کا باسی ہونے کے باوجود تم میری عدم موجودگی میں کبھی اس پگڈنڈی کارخ نہیں کرتے ہو، لیکن یہ دعویٰ کبھی تسلیم نہیں کیا تھا کہ ”بینا“ (ہمارا دیا ہوا فرضی نام) دراصل تمہیں پسند کرتی ہے۔
پھر ہم نے عہد کیا کہ اس معمے کو کبھی سلجھانے کی کوشش نہیں کریں گے کہ وہ ہم دونوں میں سے کس کی خاطر وہاں موجود ہوتی ہے ، بینا سے متعلق اس مبہم پریم کہانی کو کسی انجام تک پہنچانے کی کوشش بھی نہیں کریں گے ۔ یہ سلسلہ تین سال چلا، لیکن جب چوتھے سال ہم دونوں حسبِ روایت اس پگڈنڈی سے گزرے تو بالکونی ویران تھی۔ مجھے یاد ہے تم نے پوچھا تھا ”یار یہ ہماری بینا کہاں غائب ہے؟“ اور میں نے کہا تھا” بھئی ہم نے اسے اپنی آمد کی خبر تو دی نہیں کہ وہ ہماری منتظر ہوتی؟ ”
لیکن پھر ہم نے ہفتہ بھر کے دوران باربار وہاں کا چکر لگایا لیکن بینا غائب ہی رہی۔ میں نے تمہیں نہیں بتایا لیکن مجھے مری جیسے رومان پرور ، سحرانگیز شہر سے بھی بے زاری محسوس ہوئی اورمیں دس کے بجائے سات ہی دن میں کراچی واپس آگیا۔
تو آج سن لو یار، اس سے گزشتہ سال ، اپنےمری میں قیام کے آخری روز دوپہر کے وقت، روانگی سے محض گھنٹا بھر پہلے، جب تم میرے لیے خشک میوہ جات اور مری کی دیگرسوغا توں کی خریداری کے لیے گئے ہوئے تھے، میں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے بینا کے گھر کا رخ کیا تھا۔ سوچا تھا اس کے سامنے اگر اپنے دل کی حالت بیان نہ بھی کرسکا، توکم از کم اتنی سن گن تومل ہی جائے گی کہ وہ ہم دونوں میں سے کسے ترجیح دیتی ہے! لیکن وہاں پہنچا توگھر پرتالا لگا ہوا تھا۔ ایک پڑوسی نے بتایا کہ مالک مکان کی اکلوتی بیٹی ہڈیوں کے کینسرمیں مبتلا تھی، رات اس کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ اسے ہسپتال لے جانے کی تیاری کررہے تھے لیکن اس کی مہلت ختم ہوچکی تھی۔ اس وقت اسلام آباد میں اس کی تدفین کی جارہی ہوگی !!